73299 | طلاق کے احکام | صریح طلاق کابیان |
سوال
میاں بیوی میں یہ گفتگو ہوئی ہے:
بیوی: تم آج طلاق دو میں کل چلتی ہوں یہاں سے۔
شوہر: میں تو طلاق، سمجھ لو، دے چکا ہوں نا تم کو۔
بیوی: سمجھ کیسے لوں؟ لکھ کر دو۔
شوہر: لکھ کر کیا دوں؟ دے دی ہے بھائی چلی جاؤ۔
بیوی: کیسے دے دی ہے تم نے؟ کہاں دی ہے؟
شوہر:دے دی ہے، تمہارے ماں باپ کے گھر چھوڑ آیا تھا۔
بیوی: چھوڑنا طلاق نہیں ہوتی۔
شوہر: بے غیرتی ہوتی ہے بھائی۔
اگر طلاق ہو گئی ہے تو خاتون کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ فی الحال ایک ہسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کر رہی ہیں۔ کیا وہاں جانا ترک کر دیں اور عدت گزاریں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلاق یافتہ خاتون کے لیے عدت اپنے شوہر کے گھر میں گزارنا لازم ہے اور اس کا خرچہ شوہر کے ذمے ہے۔ لہذا سوال میں مذکور صورت میں یہ خاتون عدت کے ایام اپنے شوہر کے گھر میں گزاریں گی اور ہسپتال نہیں جائیں گی، الا یہ کہ یہ مجبور ہوں یعنی شوہر ضروری خرچہ بھی نہ دیتا ہو تو کام کے اوقات میں باہر جائیں اور کام کے بعد فوراً گھر واپس لوٹ آئیں ۔
حوالہ جات
(ولا تخرج معتدة رجعي وبائن) بأي فرقة كانت على ما في الظهيرية ولو مختلعة على نفقة عدتها في الأصح اختيار، أو على السكنى فيلزمها أن تكتري بيت الزوج معراج (لو حرة) أو أمة مبوأة ولو من فاسد (مكلفة من بيتها أصلا) لا ليلا ولا نهارا ولا إلى صحن دار فيها منازل لغيره ولو بإذنه لأنه حق الله تعالى.
(الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، 3/535، ط: دار الفکر)
محمد اویس پراچہ
دار الافتاء، جامعۃ الرشید
04/ ذو القعدہ1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس پراچہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |