03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیرگواہوں کے صرف نکاح نامہ پُر کرکے دستخط کروانے سے نکاح کا حکم
73383نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

میں نے ایک سال پہلے ایک لڑکی جس کا نام نصیر فاطمہ ہے سے نکاح کچھ اس طرح کیا تھا کہ لاہور میں ایک نکاح خواں کے پاس گیا، اس نے 25000 روپے لے کر نکاح فارم بنادیا اور کہا کہ لڑکی سے دستخط کروا کر بھیج دیں تو میں نے دستخط کروا کر بھیج دیا اور اس نے خود سے میرے 2 بھائیوں اور اس کےایک بھائی کا نام لکھ کر خود سے دستخط کردیئے اور کہا کہ تم دونوں کا نکاح ہوگیا ہے،حالانکہ وہاں نکاح خواں کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا، لڑکی سرگودھا میں تھی اور پورا سال اس نکاح کا صرف اس لڑکی اور مجھے پتہ تھا،کوئی قبول وغیرہ فون پر بھی نہیں کروایا گیا،چھ ماہ پہلے لڑکی کونکاح کا بتانا پڑا کیونکہ اس کا رشتہ ہو رہا تھا تو اس نے بتا دیا،جس پر لڑکی اور میرے گھر والوں نے زبردستی طلاق دلوائی،اس کے گھر والوں نے کہا کہ ہم اس نکاح کونہیں مانتے،ایسے نکاح نہیں ہوتا اور احتیاط کے طور پر طلاق نامہ لے لیا کہ کہیں دوبارہ ایسا نہ ہو،اب میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں،رشتہ مانگنا ہے تو کیا ہمارا نکاح ہو سکتا ہے،برائے مہربانی اس پر جامع فتوی جاری کردیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح کی صحت کے لیے دو عاقل بالغ اور مسلمان گواہوں کی موجودگی میں  ایجاب و قبول ضروری ہے،چونکہ مذکورہ صورت میں دو عاقل بالغ اور مسلمان گواہوں کی موجودگی میں  ایجاب وقبول نہیں کیا گیا،اس لیے یہ نکاح ٍصحیح نہیں ہوا اور جب نکاح صحیح نہیں ہوا تو اس کے بعد آپ کی جانب سے دیئے گئے طلاق نامے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،کیونکہ طلاق کے وقوع کے لیے عورت کا نکاح میں ہونا شرط ہے۔

لہذا موجودہ صورت میں آپ کے اس لڑکی سے نکاح میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (3/ 12):

"(فلا ينعقد) بقبول بالفعل كقبض مهر ولا بتعاط ولا بكتابة حاضر بل غائب بشرط إعلام الشهود بما في الكتاب ما لم يكن بلفظ الأمر فيتولى الطرفين فتح".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله: ولا بكتابة حاضر) فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد بحر والأظهر أن يقول فقالت قبلت إلخ إذ الكتابة من الطرفين بلا قول لا تكفي ولو في الغيبة، تأمل.

(قوله: بل غائب) الظاهر أن المراد به الغائب عن المجلس، وإن كان حاضرا في البلد ط (قوله: فتح) فإنه قال ينعقد النكاح بالكتاب كما ينعقد بالخطاب. وصورته: أن يكتب إليها يخطبها فإذا بلغها الكتاب أحضرت الشهود وقرأته عليهم وقالت زوجت نفسي منه أو تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني زوجت نفسي منه، أما لو لم تقل بحضرتهم سوى زوجت نفسي من فلان لا ينعقد؛ لأن سماع الشطرين شرط صحة النكاح، وبإسماعهم الكتاب أو التعبير عنه منها قد سمعوا الشطرين بخلاف ما إذا انتفيا .

قال في المصفى: هذا أي إذا كان الكتاب بلفظ التزوج، أما إذا كان بلفظ الأمر كقوله زوجي نفسك مني لا يشترط إعلامها الشهود بما في الكتاب؛ لأنها تتولى طرفي العقد بحكم الوكالة، ونقله عن الكامل، وما نقله من نفي الخلاف في صورة الأمر لا شبهة فيه على قول المصنف والمحققين، أما على قول من جعل لفظة الأمر إيجابا كقاضي خان على ما نقلناه عنه فيجب إعلامها إياهم ما في الكتاب. اهـ.

وقوله: لا شبهة فيه إلخ قال الرحمتي: فيه مناقشة لما تقدم أن من قال إنه توكيل يقول توكيل ضمني فيثبت بشروط ما تضمنه وهو الإيجاب كما قدمناه، ومن شروطه سماع الشهود فينبغي اشتراط السماع هنا على القولين إلا أن يقال قد وجد النص هنا على أنه لا يجب فيرجع إليه. اهـ".

"الفتاوى الهندية "(1/ 348):

"(وأما شرطه) على الخصوص فشيئان (أحدهما) قيام القيد في المرأة نكاح أو عدة (والثاني) قيام حل محل النكاح حتى لو حرمت بالمصاهرة بعد الدخول بها حتى وجبت العدة فطلقها في العدة لم يقع لزوال الحل".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

09/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب