73458 | پاکی کے مسائل | استنجاء کا بیان |
سوال
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندہ کے جسم کے کسی حصہ پر ایسی چیزچپکی جس کی وجہ سے پانی چمڑے تک نہیں پہنچ سکتا اوراس کواس کاعلم تین بعدہواتوکیاوہ تین دن کی نمازیں دہرائے گا؟ اورغسل جنابت کاکیاحکم ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بدن پرکوئی ایسی چیزلگ جائے جوبدن تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہوتواس کووضواورغسل سے پہلے اتارناضروری ہے،اگربھول کریاکسی بھی وجہ سے اتارنے کی کوشش نہیں کی گئی توایسی صورت میں اس کے بعدکیاجانے والاوضواورغسل نامکمل ہے اوراس کے بعد جونمازیں پڑھی ہیں توان کااعادہ بھی ضروری ہے،لہذاصورت مسؤلہ میں اگروہ جگہ ایسی ہے جس کاوضو میں دھوناضروری ہےتوتین دن بعد علم ہونے کی وجہ سے تین دنوں کی نمازوں کااعادہ کرنالازم ہے۔اوراگروضو میں دھوناضروری نہیں اورجنابت نہیں ہوئی ہے تودہرانے کی ضرورت نہیں،جنابت کی صورت میں دہراناضروری ہے۔
حوالہ جات
فی مراقي الفلاح (ج 1 / ص 33):
( وشرط صحته ) أي الوضوء ( ثلاثة ) الأول ( عموم البشرة بالماء الطهور ) حتى لو بقي مقدار مغرز إبرة لم يصبه الماء من المفروض غسله لم يصح الوضوء ( و ) الثاني ( انقطاع ما ينافيه من حيض ونفاس ) لتمام العادة ( و ) انقطاع ( حدث ) حال التوضؤ لأنه بظهور بول وسيلان ناقض لا يصح الوضوء ( و ) الثالث ( زوال ما يمنع وصول الماء إلى الجسد ) لحرمة الحائل ( كشمع وشحم )
فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج 1 / ص 39):
ولو لصق بأصل ظفره طين يابس وبقي قدر رأس إبرة من موضع الغسل لم يجز.
محمد اویس بن عبدالکریم
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
یکم ذی القعدہ 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |