021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین دن بعد ایلفی لگنے کاعلم ہواتونمازیں دہرانیں ہوگی یانہیں؟
73458پاکی کے مسائلاستنجاء کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک بندہ کے جسم کے کسی حصہ پر ایسی چیزچپکی جس کی وجہ سے پانی چمڑے تک نہیں پہنچ سکتا اوراس کواس کاعلم تین بعدہواتوکیاوہ تین دن کی نمازیں دہرائے گا؟ اورغسل جنابت کاکیاحکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بدن پرکوئی ایسی چیزلگ جائے جوبدن تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہوتواس کووضواورغسل سے پہلے اتارناضروری ہے،اگربھول کریاکسی بھی وجہ سے اتارنے کی کوشش نہیں کی گئی توایسی صورت میں اس کے بعدکیاجانے والاوضواورغسل نامکمل ہے اوراس کے بعد جونمازیں پڑھی ہیں توان کااعادہ بھی ضروری ہے،لہذاصورت مسؤلہ میں  اگروہ جگہ ایسی ہے جس کاوضو میں دھوناضروری ہےتوتین دن بعد علم ہونے کی وجہ سے تین دنوں کی نمازوں کااعادہ کرنالازم ہے۔اوراگروضو میں دھوناضروری نہیں اورجنابت نہیں ہوئی ہے تودہرانے کی ضرورت نہیں،جنابت کی صورت میں دہراناضروری ہے۔

حوالہ جات
فی مراقي الفلاح (ج 1 / ص 33):
( وشرط صحته ) أي الوضوء ( ثلاثة ) الأول ( عموم البشرة بالماء الطهور ) حتى لو بقي مقدار مغرز إبرة لم يصبه الماء من المفروض غسله لم يصح الوضوء ( و ) الثاني ( انقطاع ما ينافيه من حيض ونفاس ) لتمام العادة ( و ) انقطاع ( حدث ) حال التوضؤ لأنه بظهور بول وسيلان ناقض لا يصح الوضوء ( و ) الثالث ( زوال ما يمنع وصول الماء إلى الجسد ) لحرمة الحائل ( كشمع وشحم )
فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج 1 / ص 39):
ولو لصق بأصل ظفره طين يابس وبقي قدر رأس إبرة من موضع الغسل لم يجز.
                                                                        

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

یکم ذی القعدہ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب