021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پھلوں کی خرید وفروخت کے مسائل
73489خرید و فروخت کے احکامزمین،باغات،کھیتی اور پھلوں کے احکام و مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آجکل پھلوں کی بیع کے بارے میں مختلف صورتیں عوام میں چل رہی ہیں:۔

1.    (1)بعض لوگ دوتین سال کے لیے باغ بیچ دیتے ہیں ،پھر بعض تو زمین بھی تین سال کےلیے مشتری کو دے دیتے ہیں اور بعض بغیر زمین کے دیدیتے ہیں۔

(2)        بعض لوگ بور آنے پر بیچتے ہیں۔

(3)          بعض لو گ بور آنے سے پہلے ایک سال کےلیے بیچتے ہیں۔

2.    بعض  فتاوی مثلا احسن الفتا وی جلد6 صفحہ 489 پر دوسری صور ت کے بارے میں لکھا ہے کہ پھول کی بیع ہونے کی بناء پر درست ہے اور پھل پکنے تک باقی رکھنے کی شرط تعامل ناس کی وجہ سے درست ہے۔جبکہ شرح وقایہ جلد3صفحہ 17/18 پریہ عبارت موجود ہے۔

"                         وبیع ثمرة لم یبد صلاحھا اوقد بدا ویجب قطعھا وشرط ترکھا علی الشجر یفسدالبیع"

                            تو پھر اس عبارت کا کیا جواب ہوگا؟

اگر بیع کے صحیح ہونے کےلیے یہ شرط لگائی جائے کہ بیع کے بعد فوراپھل توڑدے تو اس پر تو عمل ممکن ہی نہی ہے کیونکہ مثلا آموں کی مختلف قسمیں ہیں ،بعض جلدی پکتے ہیں ،بعض کچھ عرصہ بعد اور بعض اخیر عرصے میں جا کرپکتے ہیں۔دوسرا اگر ایک مربع باغ ہوتو سارا  باغ فورا نہیں توڑا جاسکتا تو مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ اگر تعامل ناس کی وجہ سے بیع کو درست قرار دیاجائے تو پہلی صورت کے بارے میں بھی لوگوں کا تعامل چل رہا ہے تو اس کو بھی ناجائز نہیں ہونا چاہیے ،بعض مفتیان کرام نے دوتین سال تک باغ بیچنے کے صحیح ہونے کا یہ حیلہ ذکر کیا ہے کہ زمین سمیت اگر باغ بیچ دیا جائے تو یہ بیع درست ہوجائے گی تو اس پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین سمیت دیتے ہیں تو جو مشتری ہے تو اس کا مقصد تو پھل ہوتے ہیں  اس نے باغ پر خرچہ تو کرنا نہیں ہے،جب پھل پک جائیں گے تو ہ باغ چھوڑدے گا اس میں تو مالک کا نقصان ہے اور جبکہ مالک کو تو علم ہے کہ اس سال بھی پھل دے گا اور آئندہ بھی دے گا۔اس لیے تو وہ باغ کی فکر کرتا ہے ،پانی ،چوکی ،کھاد وغیرہ دیتا ہے ،تاکہ باغ ہرا بھرا رہے ،لہذا زمین سمیت دینا اس میں تو مالک کا نقصان ہے ،اور علماء کہتے ہیں کہ زمین کے بغیر بیچنے سے بیع درست نہیں ہوتی تو اسکا کوئی حل شرع کی روشنی میں متعین کیا جائے جبکہ اس میں بھی آجکل لوگوں کا تعامل چل رہاہے کثرت کے ساتھ اس طرح لوگ بیع کررہے ہیں توکیاتعامل ناس اس بیع کے صحیح ہونے لیے حجت نہیں ہے؟

3.    (1)بعض پھل بیچ کر چند پیٹیاں اپنے لیے رکھ لیتے ہیں،مثلا:دس پیٹیاں مختلف قسم کے آموں کی ہمیں دینا ،باقی تمہارے۔

(2)بعض لوگ پھلوں کے چند پودے اپنے لیے رکھ لیتے ہیں ۔

اب پوچھنا یہ ہے ان صورتوں میں سے کونسی صورتیں درست ہیں اور کونسی درست نہیں ہیں۔

4.    ایک آدمی نے اپنے باغ زمین سمیت دوسال کےلیے بیچا ،لیکن مشتری نے مالک کے اوپر شرط لگائی کہ تو باغ کو پانی بھی دے گا کھاد، چوکی ،ہل وغیرہ بھی تو دے گاتو کیا یہ صورت بیع کی جائز ہے یا نہیں ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب تک پھل  ظاہر نہ ہوئے ہوں اس وقت تک ان کی خرید وفروخت ناجائز ہے ۔

جب درخت پرصرف پھول ظاہر ہوئے ہوں تو  ان کی خرید وفروخت درست ہے ،لیکن اس صورت میں  پھلوں کی نہیں، بلکہ  پھولوں کی بیع کرنی پڑے  گی اور ظاہر ہےکہ اس کی قیمت اس صورت سے کم ہوگی جب باغ میں پھل ظاہر ہونے کے بعد پھلوں کی ہوتی ہے ، البتہ پھولوں  کے ظاہر ہونے سے پہلےباغ یعنی پھلوں کی بیع معدوم کی بیع ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

اگر پھلوں  کے ظاہر ہونے سے پہلےباغ کی  خرید وفروخت کرنا چاہیں  تو جائز ہونے کی یہ صورتیں ہوسکتی ہیں:

  1. پہلی صورت یہ ہے کہ اس وقت بیع نہ کی جائے بلکہ وعدہ بیع کیا جائے مثلا ، بائع (فروخت کنندہ) مشتری (خریدار) کو کہے کہ جب پھل  قابل بیع ہو جائیں گے تو میں اتنی رقم کے عوض وہ پھل آپ کو بیچ دوں گا اور خریدار اس بات کا وعدہ کرے کہ میں اس رقم کے عوض یہ پھل خرید لوں گا، اور اس صورت میں بائع یہ دیکھنے کے لئے کہ خریدار اپنے وعدہ میں سنجیدہ ہے یا نہیں ؟ کچھ رقم وعد ہ کے وقت لے سکتا ہے۔ پھر جب پھل بیع کے قابل ہو جائیں تو خریدار باقاعدہ بیع( ایجاب و قبول) کے ذریعے ان پھلوں کو خرید لے،باہمی رضامندی سے سابقہ قیمت پر بھی بیع ہو سکتی ہے اور نئی قیمت پر بھی ہو سکتی ہے،بیع ہونے کی صورت میں  وعدہ کے وقت لی گئی رقم کو اصل قیمت سے منہا کیا جائے گا۔ورنہ لی گئی رقم واپس کرنا ضروری ہوگا۔نیز بیع ہونے سے پہلے باغ کے پھول یا پھل ضائع ہوگئے تو وہ نقصان خریدار کا نہیں ،بلکہ باغ کے مالک کا ہوگا۔
  2. دوسری صورت  یہ ہے کہ  پہلے درختوں میں مساقاۃ (درختوں کی نگہبانی اور  پیداوار میں شرکتکا عقد ہو،  اس شرط پر کہ ان پھلوں کا متناسب  حصہ،مثلا:35فیصد، باغ کے مالک کو اور باقی حصے خریدار کو ملیں گے ،اس کے بعدباغ کا مالک اپنا حصہ خریدار کے لیے مباح کردے ، پھرباغ کا مالک،خریدار کو جتنے  سالوں  کےلیے چاہے  وہ خالی زمین اجارے پر دیدے جو کہ درختوں کے درمیان ہے اور اس کا کرایہ اپنی مرضی سے   اس قدرمقرر کرے ، جس میں زمین اور پیداوار دونوں  کو ملحوظ رکھا جائے اور اسے مناسب نفع حاصل ہو،اس صورت میں (کہ پہلے مساقاۃ کا عقد ہو ،پھر اجارہ کا )ترتیب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، یہاں دو الگ الگ معاملات ہوں گے،اب اگر پھل نہ ہو یا کم ہو تو اس کی وجہ سے کرایہ دار کو اجارہ کی اجرت میں کمی کے مطالبہ کا حق حاصل نہیں ہوگا،نیز اگر کرایہ دار  اس زمین میں اپنی کوئی  چیز کاشت کرلیتا ہے تو باغ کے مالک کو بھی اسے روکنے کا حق نہیں ہوگا۔
  3. تیسری صورت جو ذرا طویل اور مشکل ہے مگراس اعتبارسے بہتر ہے کہ لوگ زمین کے ساتھ پھر درختوں کی بھی حفاظت کریں گے وہ  یہ ہے کہ متعین مدت تک متعین اجرت پر زمین کرایہ پر دی جائے،اس کے بعد کرایہ پر لینے والا اس میں اپنے خرچے سے باغ لگائےاور آمدن بھی خود لے ،کرایہ داری کی مدت ختم ہونے پر باغ کے درختوں کی مناسب قیمت لگا کر مالکِ زمین  کو دیے جائیں،یا اگر فریقین چاہیں  تو درخت کاٹے بھی جاسکتے ہیں۔

"وبیع ثمرة لم یبد صلاحھا اوقد بدا ویجب قطعھا وشرط ترکھا علی الشجر یفسدالبیع"

اس عبارت میں پھلوں کے ظہور کے بعد بیع کو جائزقرار دیا گیا ہے ،جس کا یہ مفہوم بھی درست ہے کہ ظہور سے پہلے پھلوں کی بیع جائز نہیں ۔

احسن الفتاوی کے حوالہ سے آپ نے جواز کی جو عبارت نقل کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب صرف پھول ظاہر ہوئے ہوں ،پھل نہ ہوں ،تو  ایسے وقت میں فقط پھولوں ہی کی بیع کی جائے ،پھلوں کی بیع نہ کی جائے ۔

اس عبار ت میں جو خرید وفروخت کے بعد درختوں پر پھل چھوڑدینے کی شرط کو مفسد بیع قرار دیا گیا ہے وہ

اصولی طور پر درست ہے مگر جب پھل ظاہر ہوچکے ہوں چاہے وہ آفت سے ماموں ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں 

تو آج کل تعارف کی وجہ سے اس طرح بھی خریدوفروخت کی اجازت ہے۔لیکن اس پر پھل ظاہر ہونے سے پہلے

کی صورت کو قیاس  کرکے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ تعارف تو اس کا بھی ہے کہ لوگ پھل ظاہر ہونے سے پہلے بھی بیع کرتے ہیں،کیونکہ ظہور سے پہلے پھلوں کی بیع معدوم کی بیع ہے جو کہ منصوص طور پر منع ہے،اور جو چیز منصوص طور پر منع ہووہ لوگوں کے تعارف سے جائز نہیں ہوسکتی،باقی اس کے جائز متبادل اوپر ذکر کر دیے گئے ہیں۔

3۔ درختوں پر لگےپھل  فروخت کرتے وقت اس سے استثناء (کچھ پھلوں کو اپنے لیے خاص کرنا)اس صورت میں جائز ہے  کہ جس چیز کا استثناء کیا جارہا ہے اس کی مقدار معلوم ہو اوراستثناء کے بعد ایک معتد بہ مقدار  یقینا بچ جاتی ہو،نیز استثناء کردہ پھلوں کاوصف (اعلی ،متوسط ،ادنی )بھی  بیان کیاجائے،البتہ اس میں  بہتر صورت یہ ہے کہ پھل فروخت کرتے وقت    پھلوں کی مقدار کے بجائے درختوں کا استثناء کیا جائے،کیونکہ یہ  صورت بالاتفاق جائز ہوگی۔

4۔زمین کی دوسال کے لیے بیع کا شرعا کوئی مطلب نہیں بنتا ،کیونکہ بیع کے جواز کےلیے شرعا یہ ضروری ہے کہ مؤبد یعنی ہمیشہ کے لیے ہو،محدود وقت کےلیے شرعا اجارہ ہوسکتا ہے،بیع نہیں، لہذایہ صورت ناجائزاورباغ کے مالک پر پھلوں کی نگہبانی کی شرط لگانا باطل ہے۔

حوالہ جات
وفي سنن أبي داود (3/ 260):
عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع العنب حتى يسود و عن بيع الحب حتى يشتد.
 وفي تكملة فتح الملهم بشرح صحيح الإمام مسلم (1/250 تا 255):
 2- حكم البيع قبل بدو الصلاح:
ثم إن بيع الثمار قبل ظهورها باطل إجماعا, ولا خلاف فيه, لكونه بيع المعدوم, أما بيعها بعد الظهور قبل بدو الصلاح فله صور ثلاثة:
الأولى: أن يشترط البائع على المشتري أن يقطعها فورا ولا يتركها على الأشجار وهذه الصورة جائزة بإجماع الأئمة الأربعة وجمهور فقهاء الأمصار . الخ
والصورة الثانية: أن يشترط المشتري ترك الثمار ترك الثمار على الأشجار حتى يحين الجذاذ. وهذه الصورة باطلة الإجماع, ولا يصح البيع فيها عند أحد, إلا ما حكاه الحافظ في الفتح عند يزيد بن أبي حبيب , أنه يقول بجواز هذه الصورة أيضا, وأما سائر أهل العلم ومنهم الحنفية فيقولون بعدم جوازه لحيث بر الباب , ولكونه بيعا وشرطا… الخ
 والصورة الثالثة: أن يقع البيع مطلقا, ولا يشترط فيه قطا ولا ترك , فہذہ  الصورة محل خلاف بين الأئمة, فقال مالك والشافعي وأحمد: البيع فيها باطل, كما في الصورة الثانية, وقال أبو حنيفة رحمه الله: البيع فيها جائز كالصورة الأولى , ويجوز للبائع أن يجبر المشتري على قطع الثمار في الحال وإلى هذا المذهب يظهر جنوح البخاري….ولنا: أن صورة الإطلاق وهي الصورة الثالثة داخلة في الصورة الأولى في الحقيقة, لأنه إطلاق في اللفظ، فإن أمره البائع وجب عليه القطع في الحال، فكأنه قد شرط فيه القطع, وأما إذا لم يأمره بالقطع فلا يجب على المشتري أن يقطع الثمار, لا لأن القطع ليس بمقتضى البيع، بل لأن البائع قد تساهل في أمره, فصار كأنه باع بشرط القطع ثم تساهل ولم يأمره بالقطع , فلا فرق بين الصورة الأولى والثالثة في المال.
 3- حكم البيع بعد بدو الصلاح:
وأما بیع الثمار بعد بدو صلاحها فله صور ثلاثة أيضا, الأولى: أن تباع بشرط القطع, والثانية: أن تباع بشرط تركها على الأشجار, والثالثة: أن تباع مطلقا, فالشافعي ومالك وأحمد رحمهم الله يجوزون البيع في الصور الثلاث كلها, فإن باعها مطلقا استحق المشتري الإبقاء أوان الجذاذ كحالة شرط الإبقاء, كما في نهاية المحتاج, والمغني لابن قدامة…الخ
وأما أبو حنيفة وأبو يوسف رحمهما الله تعالى فقالا: يجوز البيع بشرط القطع وفي صورة الإطلاق, ويفسد بشرط الترك, ويجب على المشتري في صورة الإطلاق أن يقطعها إذا طالب به البائع. أما محمد بن الحسن رحمه الله ففضل المسألة وقال: لو كان البيع بشرط الترك بعد ما تناهی عظم الثمار جاز البيع استحسانا للعرف, ولو لم يتناه عظمهما فسد بشرط الترك…. الخ
وخلاصة هذا المبحث ما ذكره ابن الهمام أنه لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر , ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح بشرط الترك, ولا في جوازه قبل بدو الصلاح أو بعده بشرط القطع, لكن بدو الصلاح عندنا أن تأمن العاهة والفساد, وعند الشافعية ظهور النضج والحلاوة, والخلاف إنما هو في بيعها قبل بدو الصلاح لا بشرط القطع, فعند الشافعي ومالك وأحمد لا يجوز , وعندنا إن كان بحال لا ينتفع به في الأكل ولا في علف الدواب ففيه خلاف بين المشايخ, قيل: لا يجوز , ونسبه قاضي خان لعامة مشايخنا, والصحيح أنه يجوز , لأنه مال منتفع به في ثاني الحال إن لم يكن منتفعا به في الحال, وقد أشار محمد في كتاب الزكاة إلى جوازه , وهناك خلاف أيضا في بيعها بعد بدو الصلاح بشرط الترك, فعند الأئمة الثلاثة يجوز , وعند أبي حنيفة وأبي يوسف لا يجوز , وقال محمد: إن تناهی عظمها جاز البيع, وإن لم يتناه لم يجز.
وفی رد المحتار (18/ 383):
 ( ومن باع ثمرة بارزة ) أما قبل الظهور فلا يصح اتفاقا .( ظهر صلاحها أو لا صح ) في الأصح .
( ولو برز بعضها دون بعض لا ) يصح .( في ظاهر المذهب ) وصححه السرخسي وأفتى الحلواني بالجواز لو الخارج أكثر زيلعي .
وفی الدر المختار   (5/ 288):
فيستأجر أرضه الخالية من الأشجار بمبلغ كثير، ویساقي على أشجارها بسهم من ألف سهم، فالحظ ظاهر في ا  لإجارة لا في المساقاة، فمفاده فساد المساقاة بالأولى لأن كلا منهما عقد على حدة.
 (بمبلغ كثير) أي بمقدار ما يساوي أجرة الأرض وثمن الثمار.قوله: (ويساقي على أشجارها)
يعني قبل عقد ا لإجارة ، وإلا كانت إجارة الأرض مشغولة فلا تصح كما سيأتي.
وفي مسائل الشيوع من البزازية: استأجر أرضا فيها أشجار أو أخذها زراعة وفيها أشجار: إن كان في وسطها لا يجوز إلا إذا كان في الوسط شجرتان صغيرتان مضى عليهما حول أو حولان لا كبيرتان، لأن ورقهما وظلهما يأخذ الأرض والصغار لا عروق لها، وإن كان في جانب من الأرض كالمسناة والجداول يجوز لعدم الإخلال اه.قوله: (بسهم) أي بإعطاء سهم واحد لليتيم أو الوقف والباقي للعامل.
قوله: (فمفاده) أي مفاد ما تقدم من قوله: فتفسخ في كل المدة إلخ وقدمنا أن المصنف استفاده من كلام الخانية، وهو بمعنى ما استفاده منه الشارح فافهم.قوله: (بالأولى) ۔۔۔وفي فتاوى الحانوتي: التنصيص في الإجارة على بياض الأرض لا يفيد الصحة، حيث تقدم عقد الإجارة على عقد المساقاة، أما إذا تقدم عقد المساقاة بشروطه كانت الإجارة صحيحة كما صرح به في البزازية،
وقال الرافعی رحمہ اللہ تعالی:(قولہ:فلا تصح کما سیأتی)الذی ذکرہ  الحموی أخر السابع عشر من فن الحیل نقلا عن المحیط الرضوی استیجار الأشجار لایجوز ،وحیلتہ أن یؤاجر الأرض البیضاء التی تصلح للزراعۃ فیما بین الأشجار بأجر مثلھا وزیادۃ قیمۃ الثمار ثم یدفع رب الأرض الأشجار معاملۃ الیہ علی أن یکون لرب الأرض جزء من ألف جزء ویأمرہ أن یضع ذلک الجزء حیث أراد ،لأن مقصود رب الأرض أن تحصل لہ زیادۃ أجرالمثل بقیمۃ الثمار ومقصود المستأجر أن یحصل لہ ثمار الأشجار مع الأرض وقد حصل مقصودھما بذلک فیجوز،
وفی الدر المختار للحصفكي (5/ 67):
(فصح استثناء) قفيز من صبرة وشاة معينة من قطيع و (أرطال معلومة من بيع تمر نخلة) لصحة إيراد العقد عليها ولو الثمر على رؤوس النخل على الظاهر

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

15/ذوالقعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے