021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تمہیں طلاق دےرہاہوں،پھر کچھ عرصہ بعد کہا:تمہیں طلاق دی،طلاق دی
73459طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

میں اپنی تحریر میں جو کہوں گی اللہ پاک کی ذات کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے کہوں گی اور اللہ تعالی کا نام لے کر گواہی دوں گی،میں ایک حافظ قرآن ہوں اور اللہ کی عذاب سے ڈرتی ہوں،میں چاہتی ہوں کہ میرا معاملہ شریعت کے مطابق حل ہو،میں اللہ کے حکم پر راضی ہوں۔

گزشتہ دن پہلے میرے شوہر نے دو دفعہ طلاق کا لفظ واضح طور پر بولا اور اس سے پہلے رمضان میں انہوں نے کہا تھا میرا تمہارے ساتھ گزارا نہیں،میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور ایک دفعہ کہا کہ میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں،جاؤ،چلی جاؤ اپنے گھر،اور کئی مرتبہ بول چکے تھے،تم اپنا سامان اٹھاؤ اور اپنے گھر چلی جاؤ،میں تمہیں فارغ کروں گا،بات بات پر ان کے پاس صرف یہی الفاظ بولنے کے لیے ہوتے تھے،لیکن میں برداشت کرتی،جس رات انہوں نے ایک ساتھ دو مرتبہ کہا،اس رات میری حالت عجیب ہوگئی،میرا دل اندر ہی اندر عجیب کیفیت کا شکار ہوگیا اور میں نے چادر اٹھاکر خود کو ڈھانپ لیا،میرا دل اس بات پر آمادہ نہیں ہوا کہ وہ مجھے دیکھیں یا ہاتھ لگائے اور ساری رات میں اس بات پر راضی نہیں ہوئی کہ میں ان کےساتھ سوجاؤں،صبح اٹھتے ہی میں خود کو چادر سے ڈھانپے رکھا اور پھر ابو کے گھر آگئی۔

اس سب کے بعد بھی وہ راضی نہیں کہ انہوں نے پہلے بھی طلاق کا لفظ کہا ہے،بس ان کو دو دفعہ ایک ساتھ بولنا یاد ہے۔

تنقیح:سائل سے معلوم ہوا کہ آخری بار شوہر کے الفاظ یہ تھے: میں نے تمہیں طلاق دی،طلاق دی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں دو طلاقیں تو قضاءً واقع ہوچکی ہیں،البتہ تیسری طلاق جو شوہر کے اس سے قبل کہے گئے جملے "میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں" سے واقع ہوئی ہے وہ  دیانتاً (یعنی آپ کے اور اللہ کے درمیان معاملے کے لحاظ سے)واقع ہوئی،قضاءً نہیں،کیونکہ شوہر اس  جملےسے انکاری ہے اور آپ کے پاس اس کو قانونی طور پر ثابت کرنے کے لیے شرعی شہادت(دومرد،یا ایک مرد اور دو عورتیں) موجود نہیں۔

ایسی صورت میں آپ کے لیے حکم یہ ہے کہ اب سابقہ شوہر سے تو موجودہ حالت میں دوبارہ نکاح جائز نہیں،جبکہ کسی اور سے نکاح کے حوالے سے تفصیل درج ذیل ہے:

اگر ابھی دی گئی دو طلاقوں کے بعد شوہر نے عدت کے دوران قولی یا عملی طور پر رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے کے بعد آپ کا نکاح کسی اورسے قضاءً اور دیانتاً دونوں لحاظ سے درست ہوگا،لیکن اگر اس نے اپنے گمان کے مطابق دو طلاقیں سمجھ کر  رجوع کرلیا تو  پھر  قضاءً کسی اور سے نکاح کے جواز کے لیے آپ کو اسے تیسری طلاق پر آمادہ کرنا پڑے گا اور اگر وہ طلاق پر آمادہ نہ ہو تو پھر مہر یا مال کے عوض اسےخلع پر آمادہ کرنا پڑےگا،تاکہ آپ کا کسی اور سے نکاح قضاءً اور دیانتاً دونوں لحاظ سے درست ہوسکے۔

لیکن اگر وہ نہ طلاق دینے پر آمادہ ہو اور نہ باہمی رضامندی سے خلع دے تو بھی دیانتاً آپ کے لیے کسی اور سے نکاح کی گنجائش ہے اور آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ خود کو اس کے حوالے کریں،اس لیے ایسی صورت میں آپ کے لیے والدین کے گھر عدت پوری کرکے دوسری جگہ نکاح جائز ہوگا،لیکن اگر آپ اپنا مستقل نکاح دوسری جگہ کرنا چاہیں تو ایسی صورت میں قانونی طور پر تحفظ کے لیے آپ عدالت سے رجوع کرکے خلع کی ڈگری ضرور لے لیں،تاکہ بعد میں آپ کو قانونی لحاظ سے سابقہ شوہر کی جانب سے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية "(1/ 384):
"في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا".
"الدر المختار "(3/ 420):
"(سمعت من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها) إلا بقتله (لها قتله) بدواء خوف القصاص، ولا تقتل نفسها. وقال الأوزجندي: ترفع الأمر للقاضي، فإن حلف ولا بينة فالإثم عليه، وإن قتلته فلا شيء عليها. والبائن كالثلاث، وفيها شهدا أنه طلقها ثلاثا لها التزوج بآخر للتحليل لو غائبا انتهى. قلت: يعني ديانة. والصحيح عدم الجواز قنية، وفيها: لو لم يقدر هو أن يتخلص عنها ولو غاب سحرته وردته إليها لا يحل له قتلها، ويبعد عنها جهده (وقيل: لا) تقتله، قائله الإسبيجابي (وبه يفتى) كما في التتارخانية وشرح الوهبانية عن الملتقط أي، والإثم عليه كما مر".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله: لو غائبا) تمام عبارة البزازية وإن كان حاضرا لا لأن الزوج إن أنكر احتيج بالفرقة، ولا يجوز القضاء بها إلا بحضرة الزوج. اهـ. (قوله: والصحيح عدم الجواز) قال في القنية: وقال يعني البديع، والحاصل أنه على جواب شمس الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى، وعلى جواب الباقين لا يحل، وفي الفتاوى السراجية: إذا أخبرها ثقة أن الزوج طلقها وهو غائب وسعها أن تعتد وتتزوج ولم يقيده بالديانة اهـ كذا في شرح الوهبانية.
قلت: هذا تأييد لقول الأئمة المذكورين: فإنه إذا حل لها التزوج بإخبار ثقة فيحل لها التحليل هنا بالأولى إذا سمعت الطلاق، أو شهد به عدلان عندها، بل صرحوا بأن لها التزوج إذا أتاها كتاب منه بطلاقها ولو على يد غير ثقة إن غلب على ظنها أنه حق؛ وظاهر الإطلاق جوازه في القضاء حتى لو علم بها القاضي يتركها، فتصحيح عدم الجواز هنا مشكل، إلا أن يحمل على القضاء وإن كان خلاف الظاهر فتأمل، نعم لو طلقها وهو مقيم معها يعاشرها معاشرة الأزواج ليس لها التزوج لعدم انقضاء عدتها منه كما سيأتي بيانه في العدة.
وأطلق فشمل ما إذا كان الزوج الأول معترفا بالطلاق الثلاث أو منكرا بعد أن كان الواقع الطلاق الثلاث، ولذا قالوا ولو طلقها ثلاثا، وأنكر لها أن تتزوج بآخر، وتحلل نفسها سرا منه إذا غاب في سفر فإذا رجع التمست منه تجديد النكاح لشك خالج قلبها لا لإنكار الزوج النكاح.
وقد ذكر في القنية خلافا فرقم للأصل بأنها إن قدرت على الهروب منه لم يسعها أن تعتد، وتتزوج بآخر لأنها في حكم زوجية الأول قبل القضاء بالفرقة ثم رمز شمس الأئمة الأوزجندي، وقال قالوا هذا في القضاء، ولها ذلك ديانة، وكذلك إن سمعته طلقها ثلاثا ثم جحد، وحلف أنه لم يفعل، وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه، ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضا قال يعني البديع.
والحاصل أنه جواب شمس الإسلام الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى، وعلى جواب الباقين لا يحل انتهى، وفي الفتاوى السراجية إذا أخبرها ثقة أن الزوج طلقها، وهو غائب وسعها أن تعتد وتتزوج، ولم يقيده بالديانة، والله أعلم.
قال المصنف - رحمه الله - وقد نقل في القنية قبل ذلك عن شرح السرخسي ما صورته طلق امرأته ثلاثا، وغاب عنها فلها أن تتزوج بزوج آخر بعد العدة ديانة ونقل آخر أنه لا يجوز في المذهب الصحيح اهـ.
قلت إنما رقم لشمس الأئمة الأوزجندي، وهو الموافق لما تقدم عنه، والقائل بأنه المذهب الصحيح العلاء الترجماني ثم رقم بعده لعمر النسفي، وقال حلف بثلاثة فظن أنه لم يحنث، وعلمت الحنث، وظنت أنها لو أخبرته ينكر اليمين فإذا غاب عنها بسبب من الأسباب فلها التحلل ديانة لا قضاء قال عمر النسفي سألت عنها السيد أبا شجاع فكتب أنه يجوز ثم سألته بعد مدة فقال إنه لا يجوز، والظاهر أنه إنما أجاب في امرأة لا يوثق بها اهـ.
كذا في شرح المنظومة، وفي البزازية شهد أن زوجها طلقها ثلاثا إن كان غائبا ساغ لها أن تتزوج بآخر، وإن كان حاضرا لا لأن الزوج إن أنكر احتيج إلى القضاء بالفرقة، ولا يجوز القضاء بها إلا بحضرة الزوج. اهـ.

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

16/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب