021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مطالبہ طلاق کے جواب میں شوہر کا” لیں ” کہنے کا حکم
73429طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

ایک عورت نے اپنے شوہر سے غصے میں کہا :مجھے طلاق دے دیں،اس نے جواب میں کہا "لیں"،اس کے بعد انہوں نے رجوع نہیں کیا اور عدت گزرگئی،کیا اب یہ عورت سابقہ شوہر کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ مذکورہ لفظ "لیں" شوہر نے بیوی کی جانب سے طلاق کے مطالبے کے جواب میں بولا تھااور ہمارے عرف میں جب اس طرح مطالبہ کے جواب میں یہ لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے انشاء ہی مراد ہوتا ہے،اس لیے اس کے ذریعے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی تھی،جس کے بعد عدت گزرنے سے پہلے شوہر کو رجوع کا حق حاصل تھا،لیکن چونکہ اس نے رجوع نہیں کیا،اس لیے عدت گزرنے کے بعد اب یہ عورت سابقہ شوہر یااس کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرسکتی ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (3/ 248):
"ومنه في عرف زماننا: تكوني طالقا، ومنه: خذي طلاقك فقالت أخذت، فقد صرح الوقوع به بلا اشتراط نية كما في الفتح، وكذا لا يشترط قولها أخذت كما في البحر".
"الأشباه والنظائر لابن نجيم"(ص: 128):
"القاعدة الحادية عشرة: السؤال معاد في الجواب
قال البزازي في فتاويه من آخر الوكالة وعن الثاني لو قال: امرأة زيد طالق وعبده حر وعليه المشي إلى بيت الله تعالى الحرام إن دخل هذه الدار. فقال زيد: نعم، كان زيد حالفا بكله؛ لأن الجواب يتضمن إعادة ما في السؤال... وفيها من كتاب الطلاق: قالت له أنا طالق. فقال نعم، تطلق".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

16/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب