021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیا تجوید کا استعمال صرف قرآن کے ساتھ مخصوص ہے؟
73427ذکر،دعاء اور تعویذات کے مسائلرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے مسائل ) درود سلام کے (

سوال

محترم مفتیان کرام! میرے علم میں آیا ہے کہ تجوید کا استعمال صرف قرآن کے ساتھ مخصوص ہے. اگر یہ درست ہے تو برائے مہربانی مندر جہ ذیل سوالات کے جوابات بیان فرمادیں  اور حسب ضرورت تفصیل بھی بیان فرمادیں کہ کس حد تک اسلام میں ہمیں آسانی اور سہولت ہے ۔

۱۔کیا احادیث کو یا درود شریف کو یا احادیث میں مذکور دعاؤں کو پڑھتے وقت غنہ یا اخفا یا قلقلہ یا مد(تین یا پانچ الف کے برابر کھینچنا) کرنا یا سانس جملہ پورا ہونے تک روکے رکھنا یا کسی اور تجوید کے قاعدے کا خیال رکھنا ضروری ہے ؟ اگر ضروری ہے تو پھر کس کس قاعدے کا خیال رکھنا چاہیے؟

۲۔گھرسے نکلتے وقت یا بیت الخلا جاتے وقت کی دعا یا اس جیسی دوسری دعاؤں کو کیا تجوید سے پڑھنا چاہیے؟

۳۔نماز کے اندر صرف سوره فاتحہ اور اسکے بعد کی تلاوت میں تجوید کرنی چاہیے، باقی نماز ( جیسے ثنا یا درود شریف یا التحیات یا دعا قنوت وغیرہ) میں تجوید کے قواعد ضروری نہیں؟ اگر یہ بات غلط ہے تو پھر کن قواعد کا خیال کرنا چاہیے؟

۴۔اگر کوئی قرآنی آیت (جیسے آیت الکرسی) یا سوره (جیسے سوره فاتحہ،سوره اخلاص،سوره الناس اور سوره الفلق وغیرہ کو رات کو سونے سے پہلے بستر میں پڑھنا) بطور وظیفہ کے پڑھی جائے تو کیا تجوید کا خیال رکھا جاتا ہے؟

۵۔اگر کسی قرآنی آیت یا آیتوں کا حوالہ دیا جائے تو کیا اسے تجوید سے پڑھنا چاہیے؟

۶۔الله پاک کے اسماءحسنی کا اگر وظیفہ کیا جائےتوتجوید کا کیا اصول ہے؟مدلل جواب مطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تجوید کے تمام اصول اور ضابطےچونکہ فصیح عربی زبان کے درست ادا کرنے کے بنیادی اصول ہیں،لہذاقرآن مجید کے ساتھ یہ مخصوص نہیں ،بلکہ غیر قرآن مجید میں بھی ان کی پیروی کرنا درست بلکہ مستحسن ہے،لیکن قرآن مجید میں ان کی رعایت کی خاص تاکید ہے،اس لیے کہ قرآن مجید فصیح عربی میں نازل ہوا ہے،لہذااذان، اذکار ،اوراد واعیہ ماثورہ میں بھی تجوید کے بنیادی اصول کا لحاظ رکھنا چاہئے،مخارج اور صفارت لازمہ ممیزہ کی حد تک تو تمام عربی کلام میں رعایت ضروری ہے ،اس لیے کہ ان کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے معنی میں فرق آجاتا ہے،جبکہ مد اور غنہ وغیرہ جیسے صفات عارضہ میں رعایت ضروری نہیں،لیکن شرعا اس کی ممانعت بھی نہیں۔

حوالہ جات
الوجيز في حكم تجويد الكتاب العزيز (ص: 58)
ويبين الشهرزوري في كتابه المصباح أن أحكام التجويد من إظهار وإدغام وإقلاب وإخفاء وإمالة وتفخيم وتحقيق همز وتخفيفه كل ذلك من لغة العرب التي نزل بها القرآن،
المقدمات الأساسية في علوم القرآن (ص: 435)
الأوّل: كون (أحكام التّجويد) من صميم لغة العرب، وقد قال الله تعالى في القرآن: بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ 195 [الشّعراء: 195]، وقال:لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهذا لِسانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ [النّحل: 103].
والثّاني: نقل أئمّة القراءة الثّقات الّذين وضعت تلك الأحكام على وفق المسموع منهم، وضبطت مصاحف المسلمين على صفة قراءتهم.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۷ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب