021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مظلوم سے معافی نہ مانگنا
73430جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

اگر مظلوم جس پر بار بار ظلم ہواہو خواہ چھوٹا یا بڑا ظلم اور وہ تنگ آ کرظالم کو یوں بددعا دے کے اللہ‎ تھجے ساری زندگی ہر کام میں ناکام کرے اور اگر تو کسی بھی کام میں جب بھی محنت کرے اللہ‎ تیری محنت بھی ضائع کرے اور تجھے اس محنت کا اجر بھی نہ دے تو کیا ظالم جسے اس حدیث کا پتا بھی ہے کے مظلوم کی ہر بددعا ضرور قبول ہوتی ہے، اگر وہ مظلوم سے معافی مانگے بغیر اس نیت سے اپنی محنت جاری رکھے کہ میں محنت کروں گا اور آگے جو اللہ‎ کی رضا ہوئی میں اسی میں راضی رہوں گا ۔اگر وہ بار بار محنت کرنے کے باوجود ناکام ہوتا رہے، مگر پھر بھی معافی نا مانگے تو کیا وہ اب دین اسلام سے خارج تو نہیں ہو جائے گا ،کیا سچ میں اس کی ساری محنت ضائع ہو جائے گی ۔؟میں نے سنا ہے کے یہ ضروری نہیں کے مظلوم جو بددعا مانگے وہ بالکل اسی طرح قبول ہو ،یہ بھی ممکن ہے اللہ‎ اس کی بددعا کو قبول نہ کریں اور اس کے بدلے مظلوم پہ آنے والی کوئی مصیبت ٹال دیں ،یہ بھی ممکن ہے کے اللہ‎ مظلوم کو اپنی طرف سے کچھ دے کر ظالم کو کوئی اور سزا دے دیں یا پھر یہ بھی ممکن ہے کے اللہ‎ اس کی بددعا کو  آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مظلوم کی دنیا ہی میں اللہ کی طرف سےمدد  کا وعدہ اور اس کی دعاء کا ضرور قبول ہوناصحیح احادیث سے ثابت ہے،لیکن یہ کہیں ثابت نہیں کہ مظلوم جو بد دعا میں کہے گا ویسے ہی ہوگا،بالخصوص دینی واخروی اعتبار سے محرومی یا ناکامی کی بد دعاء توجائز بھی نہیں،لیکن ظلم چونکہ ایک بڑا اور سنگین گناہ ہے لہذا ظالم کو فوری طور پر اپنے ظلم سے توبہ واستغفار کے ساتھ مظلوم سے بھی معافی مانگنی چاہئے، قبولیت دعا کے تناظر میں اللہ کی طرف سے  قبولیت کی ممکنہ صورتیں بندے کے اپنے لیے دعاء خیر سے متعلق وارد ہوئی ہیں، انہیں مظلوم کی بد دعا ء پر منطبق کرنا خلاف تحقیق ہے، اس لیے کہ یہ دنیا ہی میں وعدہ نصرت کے منافی ہے اور اگر مظلوم کی بددعاء میں بھی قبولیت دعا کی یہ صورتیں مان لی جائیں(جیساکہ بعض محدثین نے فرمایا ہے) تواس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ ظالم پرمظلوم کی حق تلفی ودل آزاری کا وبال نہ ہوگا، بلکہ یہ کونسی عقل مندی ہے کہ  مظلوم کی بد دعاء نہ لگنے کی محض ایک امید پر اپنی دنیا وآخرت کی تباہی کا وبال اپنے سر لیا جائے۔ ظلم کرنے سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا، جب تک کہ ظلم کو جائز اور حلال نہ سمجھے۔

حوالہ جات
تفسير القرطبي (13/ 224)
وفي كتاب الشهاب:" اتقوا دعوة المظلوم فإنها تحمل على الغمام فيقول الله تبارك وتعالى وعزتي وجلالي لأنصرنك ولو بعد حين" وهو صحيح أيضا. وخرج الآجري من حديث أبي ذر عن النبي صلى الله عليه وسلم:" فإني لا أردها ولو كانت من فم كافر" فيجيب المظلوم لموضع إخلاصه بضرورته بمقتضى كرمه، وإجابة لا خلاصه وإن كان كافرا، وكذلك إن كان فاجرا في دينه، ففجور الفاجر وكفر الكافر لا يعود منه نقص ولا وهن على مملكة سيده، فلا يمنعه ما قضى للمضطر من إجابته. وفسر إجابة دعوة المظلوم بالنصرة على ظالمه بما شاء سبحانه من قهر له، أو اقتصاص منه، أو تسليط ظالم آخر عليه يقهره كما قال عز وجل:" وكذلك نولي بعض الظالمين بعضا۔
دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين (2/ 524)
قال ابن العربي: إلا أنه وإن كان مطلقاً فهو مقيد بالحديث الآخر «إن الداعي على ثلاث مراتب: إما أن يعجل له ما طلب، وإما أن يدخر له أفضل منه وإما أن يدفع عنه من السوء مثله» وهذا كما قيد مطلق قوله تعالى: {أمن يجيب المضطرّ إذا دعاه} (النمل: 62) بقوله: {فيكشف ما تدعون إليه إن شاء} (الأنعام: 41) .

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۷ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب