73501 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
2019 میں خلع کی درخواست میں نے دائر کی۔کورٹ میں ہندو جج صاحبہ نے دونوں کوبلایا۔شوہر نے نہ رضامندی ظاہر کی نہ اعتراض ظاہر کیا اور کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے گھر چھوڑا ہے اور خود کیس کیا ہے تو اس کی جو مرضی کرے ،اس کے بعدہماری لڑائی ہونے لگی اور جج صاحبہ نے ہمیں کمرے سے نکال دیا...۔بظاہر مجھے یہ لگ رہا تھا کہ وہ سارے معاملے کی ذمہ داری میرے سر ڈالنا چاہتے ہوں....جج نے دستخط کیے۔اس کے بعد شوہر یہ کہتے رہے کہ جج کے دستخط سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔انہوں نے کہا کہ وہ کسی دارالافتاء سے پوچھ کر آئے ہیں اور جب تک وہ طلاق کا لفظ نہیں کہیں گے طلاق نہیں ہوگی اور وہ مجھے رشتے میں باندھ کر رکھیں گے،انہوں نے کہاکہ جا کر اپنے علماء سے پوچھ لو کہ تم کسی دوسرے مرد پر حرام ہو...اس کے بعدمیری شوہر سے ملاقات ہوئی جس میں ہم دونوں صلح کرنے پر راضی تھے اور اس ملاقات کو باہمی تعلق کی وجہ سےرجوع کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے،انہوں نے میرےہونٹوں کو چوما اور مجھے اپنے جسم پر چھوا.. (..اس ملاقات سے پہلے میں نے اپنےوکیل سے عدت کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابھی کاروائی مکمل نہیں ہوئی اس لئےعدت شروع نہیں ہوئی اس لیے میں نے اپنے شوہر سے ملاقات کی)۔اس ملاقات کےبعدوہ گھرواپس جا کر اپنی بات سے واپس ہٹ گئے اور کورٹ کی کاروائی چلتی رہی اوراس کےبعد حق مہر واپس کیا۔پھر یونین کونسل میں 3مہینے کا وقت دیا گیا جس کےبعد طلاق کا پرچہ ملا۔سوال یہ ہےکہ:
۱-اگر کورٹ کے فیصلے اور یونین کونسل کی کاروائی کے درمیان(حق مہر ادا کرنےسے پہلے)شوہر اور بیوی میں کوئی ملاقات جس میں کوئی تعلق قائم ہوتو کیا یہ خلع جائز ہو گا ؟
۲۔میرے شوہر نے خلع پر دستخط ہوتے ہوئے سارا معاملہ میری مرضی پر چھوڑا .. لیکن بعد میں کہتے رہے کہ
میں نے طلاق نہیں دی اور جج کے دستخط دینے سے طلاق نہیں ہو گی۔تو کیا ان کی بات درست ہے؟
۳۔اگر اسی شوہر سے نکاح کرنا ہو توآئندہ کتنی طلاق کی گنجائش ہے۔میرے شوہر کا کہنا ہے کہ انھوں نے نہ اپنی زبان سے واضح طور پرنہ خلع دی اورنہ طلاق دی تو کیا یہ خلع واقع ہوا؟
۴۔اسی شوہر کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہےاور اگر کسی اور سے نکاح کرنا ہے توکیا مسئلہ ہے ؟
۵۔ساری کاروائی کے 4 مہینے بعد یونین کا نسل سے قانونی کاغذات برآمد کرنے کے لیے ...انہوں نے وہاں حاضری کے نوٹس جس پر یہ لکھا تھا کہ کورٹ کی خلع کے سلسلے میں یہاں تصدیق یا صلح کے لیےحاضر ہوا جائے ، اُس کاغذ کےاُوپر کونے پر دستخط کئے..اُس دستخط کی کیا کوئی شرعی حیثیت ہوگی ؟ ؟یہ نوٹس پیشی لگوانے کے لیےعموماً گھروں میں بھیجا جاتا ہے لیکن یہ طلاق نامہ نہیں ہوتا،اِس معاملے پر صفہ کے دارالافتاء اور اُن کےبڑے حضرت مفتی انس نے فتوی دیا ہےکہ غیر مسلم جج کے فیصلے کی وجہ سے خلع جائز نہیں ہے - مزید تسلی کے لیے آپ سے رہنمائی چاہتے ہیں تاکہ گناه کی گنجائش نہ رہےصفہ کی دارالافتاء کا فتوی یہ ہے -اس پر بھی غور فرمائیں۔
"الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مذکورہ صورت میں غیر مسلم جج کے فیصلے کی وجہ سے سرے سے خلع ہوا ہی نہیں۔ اس لیے دونوں بدستور میاں بیوی ہیں اور ان کا باہمی تعلق درست ہے۔
ایضاح النوادر(ص:153) میں ہے:لم ینفد حکم الکافر علی المسلم و ینفدحکم المسلم علی الذمی.فقط واللہ اعلم"
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
خلع در اصل زوجین کی باہمی رضامندی سے نکاح کے ختم کرنے کا عمل ہے، جس میں عدالت کا بیچ میں آنا ضروری نہیں، لیکن آج کل لا علمی سے لوگ عدالتی فسخ نکا ح کو خلع کہہ دیتے ہیں، مذکورہ صورت میں خلع نہیں ہوا، کیونکہ شوہر نے اسے تسلیم نہیں کیا، عدالت کی طرف سے فسخ بھی نہیں ہوا ،کیونکہ مسلمان کے نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار سخت شرائط کے ساتھ فقط مسلمان جج کو ہے ،غیر مسلم جج کا فیصلہ اس باب میں قطعی نامعتبر ہے۔
حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (6/ 171)
فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضا، وذلك بالخلع، واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي.
المبسوط للسرخسي (6/ 173)
(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود،
اقول وقد تقرر فی کتب الفقہ ان الکافر لیس باھل للقضاء علی المسلم
الفتاوى الهندية (3/ 397)
حتى لو حكم للذمي على المسلم لا يجوز، وإن حكم للمسلم على الذمي يجوز نص عليه في مواضع أخر من المبسوط فإنه قال: مسلم وذمي حكما ذميا جاز حكمه على الذمي دون المسلم وكذلك مسلم وذمي حكما مسلما وذميا فإن حكما للمسلم على الذمي جاز وإن حكما للذمي على المسلم لا يجوز۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 428)
وتقليد الذمي ليحكم بين أهل الذمة صحيح لا بين المسلمين، وكذلك التحكيم هندية عن النهاية ط وفي البحر عن المحيط: فلو أسلم أحد الخصمين قبل الحكم لم ينفذ حكم الكافر على المسلم وينفذ للمسلم على الذمي۔
نواب الدین
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۲۲ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نواب الدین | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |