73498 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
تملیک کے لیے ہمارے مدرسے میں یہ طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے کہ داخلہ کے وقت طالب علم یا اسکے والد سے وکالت نامے کی آنے والی عبارت پر دستخط کروا لئے جاتے ہیں،وہ عبارت یہ ہے۔
" میں جامعہ ہذا کے مہتمم صاحب اور انکے مقرر کردہ نائبین کو اس کا اختیار دیتا ہوں کہ وہ میری طرف سے زکوٰۃ، صدقاتِ واجبہ اور نافلہ میرے وکیل کی حیثیت سے وصول کر کے طلبہ کے مصارف میں خرچ کریں یا پھر جامعہ کے لیے وقف کر دیں "
اس سلسلے میں معلوم یہ کرنا ہےکہ
1. کیا اس طرح کرنے سے تملیک درست ہو گئی ؟
2. اس طرح کی تملیک کے بعد کیا مدرسے میں آنے والے تمام زکوٰۃ اورصدقاتِ واجبہ طلباء کرام پر خرچ کرنا ،اساتذہ کرام و دیگرعملے کی تنخواہوں میں استعمال کرنا، کھانے وغیرہ پر خرچ کرنا،مدرسے کے پانی، وبجلی کے بلوں وغیرہ پرخرچ کرنا، جگہ کے کرایہ پر خرچ کرنا اور مدرسے اور اس سے ملحقہ مسجد کی کسی بھی ضرورت پر خرچ کرنا جائز ہوگا؟
3. اگر یہ تملیک درست نہیں تو کیا اس متذکرہ بالا عبارت میں کسی جملے کا اضافہ کر کے یا کوئی اور تصحیح کر کے اس کو شرعی تملیک کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ؟ اس صورت میں وہ درست عبارت کیا ہو گی ؟ ان نکات پر آپ سے جلد جواب کی درخواست ہے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1و2)۔ سوال میں مذکورحیلہ تملیک جس میں داخلے کے وقت مستحقِ زکوٰۃ طلبہ مہتمم کو زکوۃ وصول کرنے اورپھر ان کی طرف سے تمام طلبہ کے مصالح میں اس کو خرچ کرنے کا وکیل بناتے ہیں، شرعی اعتبارسےدرست ہے،اس طرح کرنے سے زکوۃ کی رقم مہتمم کے پاس آتے ہی زکوۃ کے حکم سے نکل جائے گی ،لہذا اب یہ طلبہ کے جملہ مصارف میں خرچ ہوسکے گی۔
(3)۔ مذکورہ عبارت بھی درست ہے، تاہم اگرآپ چاہیں تو اس کو درج ِذیل عبارت سے بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔
’’ جب تک میں جامعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔سے بحیثیت غیر مستطیع طالب علم منسلک ہوں میری طرف سے جامعہ کے مہتمم کو یا جس کو وہ اجازت دیں اس کا اختیار ہوگا کہ وہ میرے لئے زکوٰۃ وصدقات کی رقم یا اشیاء وصول کریں۔نیز مہتممِ جامعہ کو میں اس امر کا بھی وکیل بناتا ہوں کہ وہ میری طرف سے اسے طلبہ کی ضروریات قیام وطعام ،تعلیم وغیرہ میں خود یا اپنے کسی نمائندے کے ذریعہ حسبِ صوابدید صرف کریں یاجامعہ کی ملکیت میں دیدیں یا اس پر وقف کریں ‘‘۔
حوالہ جات
وفی صحیح البخاري﴿۱؍۲۰۲﴾
وأخرج البخاري حدیثًا طویلاً طرفہ: فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہو لہا صدقۃ ولنا هدیۃ۔ (بخاری کتاب الزکاۃ / باب الصدقۃ علی موالي أزواج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۱؍۲۰۲ رقم: ۴۱۷۱ ف: ۴۱۹۳)
وفی درر الحكام شرح غرر الأحكام - (ج 5 / ص136، باب موت المکاتب وعجزہ)
وَمِنْ الْأُصُولِ الْمُقَرَّرَةِ أَنَّ تَبَدُّلَ الْمِلْكِ قَائِمٌ مَقَامَ تَبَدُّلِ الذَّاتِ أَخْذًا مِنْ قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَرِيرَةَ هِيَ لَك صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ.
وفی عمدۃ القاري( ۹؍۱۰)
والحق أنہ کان ذلک لغرض صحیح فیہ رفق للمعذور، ولیس فیہ إبطال لحق الغیر فلا بأس بہ من ذٰلک کما في قولہ تعالی: {وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہٖ وَلَا تَحْنَثْ} وإن کان لغرض فاسد کإسقاط حق الفقراء من الزکاۃ بتملیک مالہ قبل الحول لولدہ أو نحو ذلک فہو حرام أو مکروہ۔
وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (۳۸۵/۲،باب بناء المسجد و تکفین المیت)
والحيلة في الجواز في هذه الأربعة أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب كذا في المحيط۔ ( وکذافی الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۸ رقم: ۴۱۴۱ زکریا)
وفی الدرالمختار( ۲؍۲۷۱ کراچی)
وحیلۃ الجواز أن یعطي مدیونہ الفقیر زکاتہ ثم یأخذہا عن دینہ۔ (، البحر الرائق ۲؍۲۲۸)وراجع ایضا(فتاویٰ محمودیہ ۹؍۴۷۷ ڈابھیل، آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید ۵؍۱۶۱-۱۶۰)
وفی الدرالمختار( ۲؍۲۹۳ کراچی)
وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی فقیر ثم ہو یکفن فیکون الثواب لہما وکذا في تعمیر المسجد۔ (فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۵۰، کفایۃ المفتی ۴؍۲۹۳)
عن عطاء بن یسار أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل الصدقۃ لغني إلا لخمسۃ … أو لرجل کان لہ جار مسکین فتصدق علی المسکین فأهداہا المسکین لغني۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۳۱ رقم: ۱۶۳۵، سنن ابن ماجۃ ۱؍۱۳۲ رقم: ۱۸۴۱
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
23/11/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |