73493 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
میں نے کہا تھا کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو شادی کے بعد میری بیوی کو طلاق ہے اور جس وقت میں نے کہا تھا میری منگنی ہوچکی تھی،اب مجھے یاد نہیں کہ میں یہ کہا تھا کہ میری بیوی کو طلاق ہے یا جس سے منگنی ہوچکی ہے اسے طلاق ہے۔
اب وہ کام مجھ سے ہوچکا ہے،جس کی وجہ سے میں کافی پریشان ہوں کہ کیا کروں،شادی بھی بالکل تیار ہے،میں نے ایک عالم سے پوچھا تو اس نے دو حیلے بتائے:
1۔یہ کہ کسی نابالغہ لڑکی سے نکاح کرلوں اس طور پر کہ اس کا والد اس کا نکاح مجھ کروادے تو نکاح ہوتے ہی اسے طلاق ہوجائے گی،اس کے بعد جب میں نکاح کروں گا تو میری بیوی کو طلاق نہیں ہوگی۔
2۔جس لڑکی کے حوالے سے میں نےطلاق کی بات کی ہے اس سے دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کروں تو نکاح ہوتے ہی اسے ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی،اس کے بعد عدت گزارے بغیر میں دوبارہ اسی دن یا چند دن بعد نئے ایجاب و قبول اور نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرلوں تو دوبارہ طلاق واقع نہ ہوگی۔
اب آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ مذکورہ دونوں حیلے اختیار کئے جاسکتے ہیں؟
اگر لڑکی والوں کو صورت حال سے آگاہ کیے بغیر ان کی اجازت سے ایک مرتبہ مہر طے کرکے نکاح پڑھواؤں،پھر رخصتی کے دن دوبارہ از سر نو ایجاب و قبول کرکے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح پڑھواؤں تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟
مفتی صاحب میری شادی بالکل تیار ہے،لیکن اس مسئلے کی وجہ سے میں اسے ٹال رہاہوں،برائے کرم جتنی جلدی ممکن ہوسکے میری راہنمائی فرمائیں،تاکہ میں شادی کرسکوں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ آپ کو الفاظ کے حوالے سے شک ہے کہ آپ نے یہ الفاظ کہے تھے کہ "شادی کے بعد میری بیوی کو طلاق ہے یا اس لڑکی کو طلاق ہے جس سے میری منگنی ہوچکی ہے"،اس لیے آپ سوال میں ذکر کئے گئے دوسرے حیلے پر عمل کرلیں،تاکہ پہلی طلاق کے ذریعے تعلیق یقینی طور پر ختم ہوجائے اور اس کے بعد دوبارہ ہونے والا نکاح بغیر کسی شک وشبہہ کے درست ہوجائے۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 344):
"(شرطه الملك) حقيقة كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر أو حكما، ولو حكما (كقوله لمنكوحته) أو معتدته (إن ذهبت فأنت طالق) (، أو الإضافة إليه) أي الملك الحقيقي عاما أو خاصا، كإن ملكت عبدا أو إن ملكتك لمعين فكذا أو الحكمي كذلك (كإن) نكحت امرأة أو إن (نكحتك فأنت طالق) وكذا كل امرأة ويكفي معنى الشرط إلا في المعينة باسم أو نسب أو إشارة فلو قال: المرأة التي أتزوجها طالق تطلق بتزوجها، ولو قال هذه المرأة إلخ لا لتعريفها بالإشارة فلغا الوصف (فلغا قوله لأجنبية إن زرت زيدا فأنت طالق فنكحها فزارت)".
"تبيين الحقائق " (2/ 231):
" قال - رحمه الله - (إنما يصح في الملك كقوله لمنكوحته إن زرت فأنت طالق أو مضافا إليه) أي إلى الملك (كإن نكحتك فأنت طالق فيقع بعده) أي يقع الطلاق بعد وجود الشرط وهو الزيارة في الأول والنكاح في الثاني ومثل بقوله إن نكحتك بعد أن شرط أن يكون مضافا إلى الملك والنكاح ليس بملك وإنما هو اسم للعقد لكونه سببا للملك كأنه قال إن ملكتك بالنكاح وإطلاق السبب وإرادة المسبب طريق من طرق المجاز، ومثله قوله إن اشتريت عبدا أي إن ملكته بالشراء وإلا لما انعقد تعليقا ثم ذكر في المختصر فصلين: أحدهما أن يكون الحالف مالكا وتعلقه بأي شرط كان، والثاني أن لا يكون مالكا ولكنه علقه بالملك فكل واحد منهما جائز".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
23/ذی قعدہ1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |