021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کی وفات کے بعد ملنے والی پنشن کی رقم بیوہ کی ملکیت ہے؟
73495میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

شوہر کی وفات کے بعد جو رقم بطور پنشن کے ملتی ہے، اس کا مالک کون ہے ؟ بیوہ ہے ؟یا کہ شوہر کی میراث کے طور پر تقسیم ہوگا؟اگر بیوہ کی مطلقہ بچیاں بھی اس کی کفالت میں ہوں تو کیا ان کا بھی اس میں حق ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پنشن کی جو رقم شوہر کی زندگی میں ملے یازندگی میں ہی  شوہر اس کا مستحق ہوا تھا ،لیکن وصول نہیں کیا تھا تووہ اس کی ملکیت ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ میں بطور میراث تقسیم ہوگی، اور اس بارے میں اس کا بیوہ سمیت کسی بھی وارث کے لیے وصیت کرنا باطل یعنی غیر مؤثر ہے،وہ پنش جووفات کے بعدہی ملازم کے اہل خانہ کو ملتی ہے،ملازم کو زندگی میں نہیں ملتی،وہ حکومت کی صوابدیدپرہے،جس کو چاہے دے سکتی ہے،قانون کے مطابق جس کو ملے اس کے لیے حکومت کی طرف سے  ہدیہ ہے،دوسرے ورثہ کا اس میں کوئی حق نہیں،لہذا اس بارے میں شرعی حکم کادارومدارسرکاری قانون پر ہے،لہذااگر حکومت بیوہ کے علاوہ کسی اور کو دینا چاہے تو دےسکتی ہے۔(احسن الفتاوی:ج۹،ص۳۰۱)

بیوہ کی پرورش میں اگراپنا کوئی نابالغ بچہ یا کوئی(چھوٹی یا بڑی)بچی ہو اور وہ خود صاحب  مال نہ ہوں  اور نہ ہی ان کی کفالت کا کوئی دوسرا متبادل انتظام ہومثلابچوں کے ورثہ بقدر حصص میراث،نفقہ نہ دیں یا وہ خود مسکین ہوں اور حکومت کی طرف سے بھی بندوبست نہ ہو اور نہ ہی عامۃ المسلمین یہ ذمہ داری سنبھالیں تو ایسی صورت میں بیوہ اپنے مال میں سے (خواہ وہ پنشن کی رقم ہو یا  کسی اور قسم کی ذاتی رقم)ان بچوں پر اتنا خرچ کرنے کی پابند ہوگی، جتنا حصہ ان بچوں کی وراثت سے اس کو بطور ماں ملنے کی توقع ہے،مثلا اگر وہ ان بچوں سے چھٹا حصہ میراث پائے گی تو بچوں کے اخراجات کا چھٹاحصہ ماں پر لازم ہوگا،اس سے زائدخرچ بطوردین اور قرض  کے کرسکتی،جوبعد میں بچوں کےمتوقع ملکیت سے وصول کرسکے گی،البتہ اس بارے میں احتیاط یہ ہے کہ بطور دین وقرض زائد خرچ کی گئی رقم کی مقدار کو کسی دستاویز کی صورت میں محفوظ کر لیا جائے تاکہ آئندہ قانونی طور پر بھی مشکلات نہ رہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 617)
 وكذا الأم على نفقة الولد لترجع بها على الأب،
 (قوله وكذا الأم إلخ) أي إذا غاب الأب ولم يترك نفقة تجبر الأم على الإنفاق على الولد من مالها إن كان لها مال كما في الخانية، وقدم الشارح عن البحر تفريعا على قول زفر المفتى به أنها تقبل بينتها على النكاح إن لم يكن القاضي عالما به ثم يفرض لهم ويأمرها بالإنفاق والاستدانة لترجع. اهـ. ولا يخفى أن هذا كله فيما إذا لم يترك مالا عنده أو على من يقر به وبالزوجية والولاد، وإلا فقد مر أنه يفرض لها في ذلك المال، وكذا لو ترك مالا في بيته كما مر بيانه
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 771)
الثامنة: لو مات وترك أولادا صغارا، ولا مال له وله أم وجد أبو الأب، فالنفقة عليهما أثلاثا الثلث على الأم، والثلثان على الجد ولو كان كالأب كان كلها عليه اهـ ح. أقول: ۔۔۔۔۔۔وقوله في الثامنة: وله أم وجد موافق لما في بعض نسخ الأشباه، وفي بعضها ولهم بضمير الجمع العائد إلى الصغار، وهو الصواب لأن نفقة الصغير تجب على قريبه المحرم بقدر الإرث كما في المتون أي بقدر إرث المحرم من الصغير لو مات فإذا كانت الأم هنا أم الصغار صح كون الثلث عليها والباقي على الجد، لأنه قدر إرثها منهم، أما لو كانت أم أبيهم الميت يكون عليها السدس، لأنها جدة لهم وفرض الجدة السدس لا الثلث فلا يصح إرجاع الضمير إلى الميت، بل يتعين إرجاعه إلى الصغار هذا ما ظهر لي من فيض الفتاح العليم۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۴ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب