73549 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک شخص فوت ہواجس کی کوئی اولاد نہیں،بیگم صاحبہ بھی ان سے پہلے رخصت ہوچکی ہے، بھائی بھی موجود نہیں ہیں، سوائے ایک بھتیجے اورایک بہن کے، موصوف نے ترکہ چھوڑا ہے اپنی کمائی سے،اب سوال یہ ہے کہ کیا بھتیجا اوربہن دونوں اس کے میراث کے حقدارہونگے یا پھر صرف بھتیجا؟ اگردونوں حقدارہیں تو کس حساب سے ان کو حق دیاجائے گا؟ اوراگرصرف بھتیجاحقدارہے تو بھی رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات ،قرض اوروصیت کی علی الترتیب ادائیگی کے بعد اگرمرحوم کےانتقال کے وقت صرف یہی دو ورثہ زندہ ہوں جوسوال میں مذکورہیں توکل منقولہ ،غیرمنقولہ ترکہ کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کے بہن کو ایک حصہ یعنی %50 اوربھتیجے کو ایک حصہ یعنی %50دیاجائے۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
يسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [النساء/176]
وفی البحر الرائق (8/ 567)
والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
25/11/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |