021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرحوم والدہ کی میراث میں سے بہن کا حصہ
73527میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میری والدہ جن کا انتقال ہوگیا ہے،ان کی وراثت میں درج ذیل جائیداد آئی ہے،ایک گھر جس کی مالیت 8900000 تھی جو پچھلے سال بیچ دیا ،1100000کیش ،ایک پلاٹ جس کی قیمت 9500000 ہے،اس پلاٹ پر ہم نے گھر بنالیا ہے،والدہ کے ورثہ میں ایک میں ہوں،ایک میرا دوسرا بھائی ہے،ایک بہن ہے اور ان کے شوہر یعنی میرے والد۔

گھر اور بنک کیش کا پندرہ فیصد بہن کو دے دیا،پلاٹ پر گھر بناتے وقت نیت یہ تھی کہ پلاٹ کی کل مالیت کا شرعی لحاظ سے پندرہ فیصد بہن کو اسی وقت ہی دے دیا جائے گا،سوال یہ تھا کہ جو گھر بن گیا ہے اب اس میں ماں کی وراثت میں سے بہن کا مزید حصہ ہوگا یا وہ ادا ہوگیا ہے؟

اسی طرح والد کی وفات کے بعد اس گھر میں والد کے حصے میں سے بہن کو حصہ ملے گا یا نہیں؟

تنقیح :سوال میں کچھ ابہام کی وجہ سے سائل سے فون پر تنقیح سے معلوم ہوا کہ والدہ کا کل ترکہ انہی تین چیزوں پر مشتمل تھا جن کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے،اس کے علاوہ وفات کے وقت ان کی ملک میں کچھ نہیں تھا اور ان تینوں چیزوں میں سے پندرہ فیصد کی ادائیگی بہن کو کردی گئی ہے،بقیہ پلاٹ پر تعمیر میں بہن کا پیسہ نہیں لگایا گیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وفات کے وقت جو سونا،چاندی،نقدی،جائیداد یا ان کے علاوہ جو بھی چھوٹا بڑا سامان والدہ کی ملک میں تھا سب ان کا ترکہ ہے،جس میں سے پندرہ فیصد بہن کا حصہ بنتا ہے،چونکہ آپ کی والدہ کے ترکہ میں یہی تین چیزیں تھیں جن میں سے بہن کو اس کے حصے کی ادائیگی کردی گئی ہے،اس لیے بہن کے حصے کی ادائیگی کے بعد تعمیر کئے جانے والے گھر میں بہن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

لیکن یہ حصہ تو انہیں والدہ کی میراث میں سے ملا ہے،والد کی وفات کے بعد ان کے ترکہ میں سے بھی اسے حصہ ملے گا،بشرطیکہ یہ بہن والد کی وفات تک زندہ رہے۔

حوالہ جات
"البحر الرائق " (8/ 577):
قال – رحمهﷲ - (ولا توارث بين الغرقى والحرقى إلا إذا علم ترتيب الموت) أي إذا مات جماعة في الغرق أو الحرق ولا يدرى أيهم مات أولا جعلوا كأنهم ماتوا جميعا فيكون مال كل واحد منهم لورثته ولا يرث بعضهم بعضا إلا إذا عرف ترتيب موتهم فيرث المتأخر من المتقدم وهو قول أبي بكر وعمر وزيد وأحد الروايتين عن علي - رضي ﷲ عنه - وإنما كان كذلك؛ لأن الإرث يبنى على اليقين بسبب الاستحقاق وشرطه وهو حياة الوارث بعد موت المورث ولم يثبت ذلك فلا يرث بالشك".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب