021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق نامہ بنوا کر کسی اور سے دستخط کروانے کا حکم
73553طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

ایک شخص جس کا نام محمدعثمان فاروقی ہے اور یہ خود بھی ایک عالم دین/مفتی ہے ۔ اس نے دو شادیاں کیں ہیں ۔ پہلی سے کچھ اختلاف ہوا ۔ اس نے دوسری کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا جبکہ دوسری بیوی پہلے سے کورٹ کی طرف سے یک طرفہ خلع یافتہ ہے اور ایک مستند ادارے نے فتوی بھی دیا ہے کہ دوسری بیوی عثمان کے لیے حلال نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں پہلی والی نے اس بات پر صلح کی کہ اگر یہ دوسری کو طلاق دے دیتا ہے تو پہلی بیوی اس کے ساتھ رہنے کو تیار ہے ۔ اس صلح کو تسلیم کرتے ہوئے مفتی عثمان فاروقی نے طلاق نامہ تیار کروا کر تصدیق بھی کروایا اور پھر اپنے ہاتھوں سے ہی طلاق کے مقصد اور نیت و ارادے سے پہلی بیوی کے وکیل کو دے دیا جس میں دو گواہوں کے دستخط اور خود مفتی عثمان فاروقی کے دستخط بھی موجود ہیں ۔ وکیل صاحب نے اس طلاق نامہ کو وصول کر کے پہلی بیوی تک پہنچا دیا تا کہ وہ اس کو دیکھ کر اپنے گھر یعنی مفتی عثمان فاروقی کے پاس چلی جائے اور اپنے گھر میں ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکے لیکن جب پہلی بیوی اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے تو دیکھتی ہے کہ دوسری بیوی جو اب طلاق یافتہ ہے ، اس کا سارے کا سارا سامان اب بھی موجود ہے جس پر اس نے اپنے شوہر مفتی صاحب سے مطالبہ کیا کہ دوسری بیوی کا سارا سامان لوٹا دو جس پر مفتی عثمان فاروقی نے چند دنوں بعد ہی اپنی طلاق یافتہ بیوی کو اس کا سارا سامان لوٹا دیا ۔ اب پہلی بیوی مکمل طور پر مطمئن ہو جاتی ہے کہ دوسری سے جان چھوٹ گئی مگر اسی دوران اطلاع ملتی ہے کہ مفتی عثمان فاروقی نے اپنی دوسری بیوی کو طلاق نہیں دی ہے ۔ جب اس بارے میں مفتی عثمان فاروقی سے استفسار کیا تو مفتی عثمان فاروقی جواب دیتے ہیں کہ اس طلاق نامہ پر میرے دستخط نہیں ہیں ، کسی اور نے کیے ہیں ۔ آیا شرعی حیثیت سے کیا حکم ہے کہ یہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں جبکہ طلاق نامہ خود مفتی عثمان فاروقی نے اپنے ہاتھوں سے دیا ۔ دیتے وقت مقصد و ارادہ بھی یہی تھا کہ یہ دوسری بیوی کا طلاق نامہ ہے جو کہ اردو میں تحریر ہے ۔ اس کے علاوہ اس طلاق نامہ کو پہلی بیوی کے والد صاحب نے کئی رشتے داروں میں بھی تقسیم کیا تب بھی اس نے اس طلاق نامہ کا انکار نہیں کیا اور اب تقریباً دو سے تین ماہ کے بعد انکار کر رہاہے ۔ کیا یہ دین کے ایک حساس حکم کا مذاق نہیں ہے ؟

پوچھنا یہ ہے کہ اس طلاق نامہ کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے اور ایسے مذکورہ شخص کے لیے قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جس طرح زبانی طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ، اسی طرح تحریری طور پر بھی طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ، البتہ اگر شوہر کا طلاق دینے کا ارادہ نہ ہو  اور وہ بیوی کو ڈرانے یا مطمئن کرنے کے لیے جھوٹا طلاق نامہ بنوائے اور اس پر دو گواہ بھی بنا لے کہ طلاق نامہ بنوانے سے اس کا مقصد بیوی کو طلاق دینا نہیں ہے تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔نیز اگر شوہرنے وکیل سے صرف طلاق نامہ بنانے کا کہا اور اس کو طلاق نامہ کے الفاظ خود نہیں لکھوائے اور پھر اس پر دستخط بھی نہیں کیے تو اس صورت میں بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

 سوال کے ساتھ منسلک طلاق نامہ میں صراحت کے ساتھ یہ جملہ لکھا ہے کہ "اب میں پیاری بیگم بنت محمد حسین کو تحریری طور پر طلاق ثلاثہ دیتا ہوں "، لہذا صورت مسئولہ میں اگر شوہر نے خود طلاق نامہ بنوا کر دوسری بیوی کو بھیجا ہے تو اس صورت میں دوسری بیوی کو تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں چاہے دستخط شوہر کی جگہ کسی اور نے کیے ہوں ، البتہ اگر شوہر کا دوسری بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ نہ تھا اور طلاق نامہ بنواتے وقت انہوں نے اس بات پر دو گواہ بنالیے تھے کہ طلاق نامہ بنوانے سے مقصد دوسری بیوی کوطلاق دینا نہیں ہے بلکہ صرف پہلی بیوی کو مطمئن کرنا ہے تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 293)
قال: أنت طالق أو أنت حر وعنى الإخبار كذبا وقع قضاء، إلا إذا أشهد على ذلك؛ وكذا المظلوم إذا أشهد عند استحلاف الظالم بالطلاق الثلاث أنه يحلف كاذبا صدق قضاء وديانة شرح وهبانية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 246)
ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصا
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 246)
(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة ط (قوله إن مستبينا) أي ولم يكن مرسوما أي معتادا وإنما لم يقيده به لفهمه من مقابلة وهو قوله: ولو كتب على وجه الرسالة إلخ فإنه المراد بالمرسوم (قوله مطلقا) المراد به في الموضعين نوى أو لم ينو وقوله ولو على نحو الماء مقابل قوله إن مستبينا (قوله طلقت بوصول الكتاب) أي إليها ولا يحتاج إلى النية في المستبين المرسوم، ولا يصدق في القضاء أنه عنى تجربة الخط بحر
الفتاوى الهندية (1/ 379)
في المنتقى لو كتب كتابا في قرطاس وكان فيه إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في كتاب آخر أو أمر غيره أن يكتب نسخة ولم يملل هو فأتاها الكتابان طلقت تطليقتين في القضاء إذا أقر أنهما كتاباه أو قامت به بينة وأما فيما بينه وبين الله تعالى فيقع عليها تطليقة واحدة بأيهما أتاها ويبطل الآخر لأنهما نسخة واحدة وفيه أيضا رجل استكتب من رجل آخر إلى امرأته كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه وطواه وختم وكتب في عنوانه وبعث به إلى امرأته فأتاها الكتاب وأقر الزوج أنه كتابه فإن الطلاق يقع عليها وكذلك لو قال لذلك الرجل ابعث بهذا الكتاب إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها وإن لم تقم عليه البينة ولم يقر أنه كتابه لكنه وصف الأمر على وجهه فإنه لا يلزمه الطلاق في القضاء ولا فيما بينه وبين الله تعالى وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه كذا في المحيط والله أعلم بالصواب.

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27 ذو القعدۃ 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب