03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کام کے بغیر انجینئرنگ سرٹیفیکٹ کی بنیاد پر کمپنی سے اجرت لینا
73694میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

جب کوئی انجینئر اپنی تعلیم مکمل کرلیتا ہے تو پاکستان انجینئرنگ کونسل کی طرف سے اسے ایک سرٹیفیکٹ اور کارڈ دیا جاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ رجسٹرڈ انجینئر ہے،پاکستان میں جتنی بھی کنسٹرکشن کمپنیاں ہیں،ان پر قوانین کے تحت لازم ہے کہ وہ اپنی کمپنی میں اپنی ساخت کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ انجینئر رکھیں گے اور انہیں طے شدہ تنخواہ پر مستقل نوکری دیں گے اور وہ انجینئر اس کمپنی میں باقاعدہ اپنے فرائض سرانجام دے گا اور اس کا باقاعدہ معاہدہ P E C کے پاس جمع کرائے گا،تب جاکر کمپنی کو لائسنس ملے گا،ورنہ کمپنی رجسٹرڈ ہی نہیں ہوگی۔

اب کمپنیاں انجینئرز سے رابطہ کرتی ہیں کہ آپ ہمیں اپنا سرٹیفیکیٹ ایک سال کے لیے بیچ دیں اور باقاعدہ کمپنی میں بھرتی ہوکر کام کرنے کے بجائے ایک مقرر رقم وصول کرلیں،ایسا کرنے سے کمپنی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی چھاپہ مار ٹیم آئے تو کمپنی اس کے سامنے دعوی کرسکے کہ اس نے انجینئر بھرتی کیا ہے اور اس کی نگرانی میں کام کررہی ہے،کیا انجینئرز کے لیے کمپنیوں کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ اس معاہدے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،بلکہ کمپنی محض PEC میں رجسٹریشن کے لیے انجینئر یا اس کے ایجنٹ سے یہ معاہدہ کرتی ہے اور حقیقت میں انجینئر کمپنی کے پروجکٹس کو نہیں دیکھتا،جس کی وجہ سے یہ معاملہ جھوٹ،فراڈ،دھوکے اور قانون کی خلاف ورزی پر مشتمل ہے،اس لیے یہ معاہدہ شرعا جائز نہیں،لہذا کسی انجینئر کے لیے کسی کمپنی سے اس طرح کا معاہدہ کرنا اور اس کے عوض اجرت یا کمیشن لینا جائز نہیں۔

حوالہ جات

صحيح مسلم (1/ 99)

عن أبي هريرة أن رسولﷲ صلى ﷲ عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا فقال: «ما هذا يا صاحب الطعام؟» قال أصابته السماء يا رسول ﷲ! قال: «أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش فليس مني»

"رد المحتار "(ج 26 / ص 453) :

"وقال في النهاية : قال بعض مشايخنا : كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه ، وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة ، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم ، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه ا هـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

22/ذی الحجہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب