021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیا دادا کابیٹوں اورپوتوں کو ہبہ کرنا اوربیٹیوں کو چھوڑ دینے کا عمل درست ہے؟
73695میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

حضرت میں تقسیم وراثت کے بارےمیں چند سوالات پوچھنا چاہتاہوں ,میرے دادا کے چاربیٹے اورچاربیٹیاں ہیں اورپانچواں بیٹا داداکی زندگی میں فوت ہوگیاتھااب اس فوت شدہ بیٹے کی بیوہ اوراولادزندہ ہیں ،میرے دادانے اپنی زندگی مین اپنے چاروں بیٹوں اورپانچویں بیٹے کی اولاد کو دس دس ایکڑزمین اورایک ایک مکان عطیہ کیا تھا لیکن اپنی بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا تھا،تقسیم کے بعد قبضہ بھی دیدیاتھا ،تقسیم کے وقت داداکی تمام اولاد عاقل بالغ اورشادی شدہ تھی،سوال اب یہ ہے کہ کیا میرے دادا کا یہ عمل شرعی لحاظ سے ٹھیک تھا یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کےدا دا کا مذکورہ عمل شرعی لحاظ سے درست نہیں تھا ،اس لیے کہ  انہوں نےبیٹوں اورپوتوں کو دیا مگر بیٹیوں کو محروم رکھا ، افضل تو یہ تھاکہ آپ کےدادا تمام  بیٹوں اوربیٹیوں کودیتے اورکسی ایک کوبھی محروم نہ کرتے اوربرابرسرابر دیتے،ان  میں تفریق  نہ کرتے ، تاہم  جب انہوں نے  ایساکرہی لیا ہے اورسب کو دی جانےجانے والی دس ایکڑزمین انہوں نے الگ کرکے ان کواس پر قبضہ بھی کرادیاتھاتو یہ زمین ان کوملکیت ہوگئی تھی،لہذا یہ دادا کی میراث میں شامل نہیں ہوگی ۔

البتہ جو دس ایکڑزمین انہوں نےپوتوں کو دی تھی اورپوتے ایک سے زائد تھے تو تقسیم کرکے ہرایک کو اس کا حصہ الگ الگ کرکے دینا ضروری تھا یا کم ازکم ان کو تقسیم کا وکیل بنانا ضروری تھا اگرانہوں نے ایسانہیں تو قابل تقسیم مشترک چیز کا ہبہ ہونے کی وجہ سے یہ ہبہ درست نہیں ہوا،  لہذا اس صورت میں  یہ دس ایکڑزمین دادا کی میراث میں جائے  گی ۔

حوالہ جات
الهبة عقد مشروع ۔۔"وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك.۔۔۔۔ ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة"
 وفی شرح معاني الآثار - الطحاوي (4/ 84):
 فقالوا ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في العطية ليستووا في البر ولا يفضل بعضهم على بعض فيوقع ذلك له الوحشة في قلوب المفضولين منهم.
وفی الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 256-258):
(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح........(و) تصح (بقبض بلا إذن في المجلس) فإنه هنا كالقبول فاختص بالمجلس (وبعده به) أي بعد المجلس بالاذن.وفي المحيط: لو كان أمره بالقبض حين وهبه لا يتقيد بالمجلس ويجوز القبض بعده (والتمكن من القبض كالقبض.
وفی العناية شرح الهداية - (ج 12 / ص 289)
قال : ( وإذا وهب اثنان من واحد دارا جاز ) ؛ لأنهما سلماها جملة وهو قد قبضها جملة فلا شيوع ( وإن وهبها واحد من اثنين لا يجوز عند أبي حنيفة ، وقالا يصح ) ؛ لأن هذه هبة الجملة منهما ، إذ التمليك واحد فلا يتحقق الشيوع كما إذا رهن من رجلين .وله أن هذه هبة النصف من كل واحد منهما ، ولهذا لو كانت فيما لا يقسم فقبل أحدهما صح ، ولأن الملك يثبت لكل واحد منهما في النصف فيكون التمليك كذلك ؛ لأنه حكمه ، وعلى هذا الاعتبار يتحقق الشيوع .
وفی المبسوط:
وَإِذَا وَهبَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ نَصِیْبًا مُسَمّٰی مِنْ دَارٍ غَیْرَ مَقْسُوْمَۃٍ وَسَلَّمَہُ إِلَیْہِ مُشَاعًا أَوْ سَلَّمَ إِلَیْہِ جَمِیْعَ الدَّارِ لَمْ یَجُزْ یَعْنِيْ لایَقَعُ الْمِلْکُ لِلْمَوْہُوْبِ لَہُ بِالْقَبْضِ قَبْلَ الْقِسْمَۃِ عِنْدَنَا الخ۔ (المبسوط لسرخسي ۱۲/ ۶۴)
وفی الشامیة:
فإن قسّمہ أي الواهب بنفسہ أو نائبہ أو أمر الموہوب لہ بأن یقسم مع شریکہ کل ذٰلک یتمُّ بہ الہبۃ کما ہو ظاهر لمن عندہ أدنی فقہٍ۔ (شامی ۸؍۴۹۵ زکریا)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

 24/12/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب