021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیرکسی معقول عذر کے یکطرفہ عدالتی خلع کا حکم
73727طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

شادی کے بعدمیری بیوی کچھ عرصہ میرے پاس رہی،پھر

میری بیوی کو اس کے والد نے کورٹ میں خلع کے لیے لایا،جس کا مجھے اس وقت کوئی علم نہیں تھا،یعنی نہ مقدمہ کی اطلاع ملی،نہ کوئی نوٹس،نہ کسی طریقے سے مجھے بتایا گیا اور نہ مجھے اس وقت تک کورٹ کا کوئی آرڈر یا نوٹس ملا ہے،کورٹ نے یکطرفہ خلع کا فیصلہ کیا،حالانکہ میں پہلے دن سے اس وقت تک ان کی ہر بات مانتا رہتا ہوں اور ہر وہ شرط جو شریعت کے مطابق ہو میں ماننے کے لیے تیار تھا اور تیار ہوں اور نان نفقہ بھی فراہم کرتا رہا۔

کیا اس صورت میں اس یکطرفہ عدالتی خلع سے میرا نکاح ختم ہوچکا ہے؟جبکہ میری طرف سے جدائی کا کوئی بھی فیصلہ نہیں ہوا اور میری موجودگی میں عدالتی فیصلے کے بعد تین حیض گزرجانے کے بعد کیا میری بیوی سعدیہ شرعا کسی اور مرد سے نکاح کرسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر استفتاء میں ذکر کی گئی تفصیل حقیقت پر مبنی ہے اور عورت نے بلا کسی معقول عذر کے عدالت سے خلع کی درخواست کی ہے،جس پر عدالت نے حقیقی صورت حال کی تفتیش کیے بغیر یکطرفہ طور پربلاعوض خلع کی ڈگری جاری کردی ہے تو شریعت میں ایسی ڈگری کا کوئی اعتبار نہیں ہے،کیونکہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی شرط ہے اور فسخِ نکاح کے لیے کسی شرعی معقول عذر کا ہونا،چونکہ مذکورہ صورت میں نہ شوہرخلع دینے پر رضامندہے اور نہ ہی فسخِ نکاح کا کوئی معقول سبب موجودہے،اس لیےآپ دونوں میاں بیوی کا نکاح ختم نہیں ہوا اور بدستور وہ عورت آپ کے نکاح میں ہے اور جب تک آپ خلع کے کاغذات پر دستخط نہیں کریں گے یا اسے طلاق نہیں دیں گے وہ آپ کے نکاح میں رہے گی۔

حوالہ جات
"صحيح البخاري "(7/ 47):
"عن عكرمة، عن ابن عباس رضي ﷲ عنهما، قال: جاءت امرأة ثابت بن قيس بن شماس إلى النبي صلى ﷲ عليه وسلم، فقالت: يا رسول ﷲ!ما أنقم على ثابت في دين ولا خلق، إلا أني أخاف الكفر، فقال رسول ﷲ صلى ﷲ عليه وسلم: «فتردين عليه حديقته؟» فقالت: نعم، فردت عليه، وأمره ففارقها".
"المبسوط للسرخسي" (6/ 173):
"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

22/ذی الحجہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب