03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہنوں کا زبانی میراث معاف کرنا اورتخارج کاحکم
73696میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرے دادا 1999فوت کو ہوئے تو اس وقت ان کی وراثت میں سإڑھے بارہ ایکڑ زرعی زمین اورگاؤں کے کچھ مکانات تھے اس کے علاوہ ان کے پاس نقدی یا اورچھوٹی موٹی اشیاء تھیں یا نہیں؟ ان پر کوئی قرضہ تھا یا نہیں،اوراگرتھاتو کتنا تھا؟ اس کا مجھے علم نہیں ،دادا کی وفات کے وقت ان کے 4بیٹے اور4بیٹیاں حیات تھیں اورپانچویں فوت شدہ بیٹے کی اولاد بھی مووجود تھی ،ہماری دادی پہلے ہی سے فوت ہوچکی تھیں ،میرے دادا کی وفات کے بعد میرے والدصاحب اورایک چچااپنی تمام بہنوں کے پاس گئے جوکہ تمام کی تمام عاقلہ اوربالغہ تھیں اوران سے کہا کہ آپ جائیداد میں سے اپنا حصہ لے لیں یا اس کے بقدر رقم لے لیں یا بھائیوں کے حق میں اپنا اپناحصہ معاف کردیں ،ان میں سے ایک بہن نے تواپنے حصے کے بقدر رقم لے لی اورباقی تین بہنوں نے اپنا اپنا حصہ معاف کردیا اس کے بعد ساڑھے بارہ ایکڑ زمین اورپانچ گاؤں کے مکانات 4بھائیوں اورپانچویں بھائی کی اولاد میں برابر تقسیم ہوگئے ،پانچویں فوت شدہ بھائی کی اولاد اگرچہ شرعی وارث نہیں بنتی تھی، لیکن سرکاری قانون اوربھائیوں کی رضامندی کے ساتھ ان کو بھی برابر حصہ ملا، اس تقسیم کے بعد میرے والد صاحب کے حصے میں اڑٕھائی ایکڑٕزمین اورایک گاؤں کا مکان آگیا جو کہ انہوں نے اپنی زندگی میں فروخت کردیا تھا اوراس کی رقم اپنے استعمال میں لے آئے تھے ،اب سوال یہ ہے  کہ یہ تقسیم درست ہوئی ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی وارث کا ترکہ میں سے کچھ لئے بغیر زبانی طور پراپنا حصہ بخش دینا درست نہیں، اس سے اس کا ترکہ میں حق ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدستور باقی رہتاہے،لہذا مسؤلہ صورت میں آپ کے دادا کے تین بیٹیوں نے ان کی وفات کے بعدآپ کے والداور چچا کے سامنے جو زبانی طور پر اپنا حصہ معاف کیا تھا وہ معاف نہیں ہوا ،اب بھی وہ اپنا حق مانگ سکتی ہیں اوردیگرورثہ  پر  لازم ہے کہ ان کاحق پورا پورا اداکریں اگر کسی زمین یا جائیداد کے عوض اس کی قیمت دینا چاہیں تو موجودہ قیمت دینا لازم ہوگی۔

آپ کے دادا  کےجس بیٹی نےکچھ نقد رقم لیکر اپنا حق معاف کیاہے وہ معاف ہوگیاہے،بشرطیکہ آپ کے دادابو کے ترکہ میں کسی پر قرض نہ ہواور جتنی نقدرقم مذکورہ بیٹی نےلی ہے،باقی ترکہ میں یا تو نقد رقم بالکل نہ ہویا ہومگر اس میں  متعلقہ بیٹی کا باقی ماندہ حصہ لی جانے والی رقم سےزائد ہو،کم یا برابرنہ ہو۔

جن تین بہنوں کا حق معاف نہیں ہوا وہ اب چونکہ بھائیوں اورپھر ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوچکا ہے،لہذا ان سب پرلازم ہے کہ داداکی مذکورہ بیٹیوں کوان کے شرعی حصے لوٹادیں،اگروہ نہ رہے ہوں تو ان کی اولاد کو لوٹادیں یا باہمی رضامندی سےکوئی چیز دیکر ان سے صلح کرلیں،اورآخرت کی مواخذہ سےاپنے آپ کو بچائیں۔

واضح رہے کہ وراثت کا حقدار بننے کیلئے مورِث کے انتقال کے وقت وارث کا زندہ ہونا شرعاً ضروری ہےلہذامسئولہ صورت میں دادا کی زندگی میں جو بیٹا فوت ہواہے، دادا کی میراث میں اس کی اولاد شرعاً وارث اور حقدار نہیں ہیں،تاہم جب ورثہ عاقل، بالغ تھے اورانہوں نے اپنی رضامندی سے مذکورہ بھائی کے بچوں کو ترکہ میں سے کچھ دیا ہےتویہ اچھی بات ہےاور باعثِ اجروثواب ہے،تاہم چونکہ اس میں بھی دادا کی مذکورہ بیٹیوں کاحصہ آگیاہے، لہذا وہ حصہ یاتو یہ بالغ ورثہ اپنے حصہ میں سے شمارکرلیں ،ورنہ ان پوتوں کو دادا کی ان تین بیٹیوں کا حصہ لوٹاناپڑےگا،کاکچھ دیکر ان سے صلح کرناہوگا۔

حوالہ جات

وفی تكملة حاشية رد المحتار - (2 / 208)

وفيها: ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الارث جبري لا يصح تركه.

(م م)غمز عيون البصائر - (3 / 354)

قوله لو قال الوارث تركت حقي إلخ اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لو قال وارث تركت حقي إلى آخر كلامه وفيه التصريح بأن إبراء الوارث من إرثه في الأعيان لا يصح وقد صرحوا بأن البراءة من الأعيان لا تصحِ.

وفی لسان الحكام - (1 / 236)

وفي جامع الفتاوى ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منه أو من حصتي لا يصح وهو على حقه لأن الإرث جبري لا يصح تركه.

وفي الدرالمختار (٦/٢٤٢)

 (أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي

(ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه شرنبلالية وجلالية ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا، وكذا لو أنكروا إرثه لأنه حينئذ ليس ببدل بل لقطع المنازعة.

عن سمرة بن جُنْدب رضي الله عنه قال: قال رسول الله  صلى الله عليه وسلم : "على اليد ما أخذت، حتى تؤدِّيَه" رواه أهل السنن إلا النسائي.

وفی المبسوط للسرخسي (18/ 34)

 وجه قوله الآخر أن حياة الوارث عند موت المورث شرط ليتحقق له صفة الوراثة.

.سید حکیم شاہ

دارالافتاجامعۃ الرشیدکراچی

24/ذی الحجہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب