73697 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ہم 3 بھائی اور2بہنیں ہیں میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں ایک مکان اپنے چھوٹے بیٹے کو قبضہ کے ساتھ عطیہ کیا ،اس کی غربت کی وجہ سے اورایک دکان مجھے اورمیرے بڑے بھائی کو قبضہ کے ساتھ عطیہ کردی تھی،دکان چھوٹی تھی جس کو مزید تقسیم اگرکرتے تو بازارکے حساب سے ناقابلِ استعمال ہوجاتی ،اس طرح والد صاحب نے اپنی ایک بیٹی کو کچھ معمولی نقد رقم دی اوردوسری بیٹی جو مالی لحاظ سے امیرتھی اس کو کچھ نہیں دیا،کیا یہ تقسیم درست تھی یانہیں ؟اورکیا میرے حصے میں جودکان کا آدھا حصہ آیا ہواہے اس میں کسی کا حق ہے یا نہیں ؟ اگر حق ہے تو کتناہے؟اوراس کو ادا کرنے کی کیا صورت ہے ؟
سن200ہزارمیں جب میرے والد صاحب کی وفات ہوئی تو ان کی وراثت میں کل ساڑھے آٹھ ایکڑزرعی زمین تھی جوکہ شرعی طریقے سے میری والدہ ،ہم تین بھائیوں اوردو بہنوں میں تقسیم ہوگئی،اورمیرے حصے میں 1.86ایکڑزرعی زمین آگئی ،اس وقت میرے پاس 1.86ایکڑزرعی زمین ہے جووراثت میں منتقل ہوئی ہےاوراسی طرح دکان کا آدھاحصہ بھی تھا جوکہ مجھے والد صاحب نے اپنی حیات میں قبضے کے ساتھ مجھےعطیہ کی تھی ،اب میں وہ اپنے بڑے بھائی کو فروخت کرچکاہوں ،کیا یہ میرے حق کے عین مطابق ہے یا کسی اوریعنی میری بہنوں یامیرے والد صاحب کی بہنوں کا کوئی حق میری طرف ہے ؟اگر دادا سے لیکرابھی تک کسی کا کوئی حق میری طرف ہے تو وہ کتنا ہے اورمیرا اصل حق کتنا ہے اوراس کو ادا کرنے کا طریقہ کیاہے؟ان سوالات کا مقصد اپنے کو آخرت کے مواخذے سے بچاناہے ۔اسی طرح اگر میرے والد صاحب سے کوئی قابلَ مواخذہ غلطی ہوئی ہوتو میں اس کا ازالہ کیسے کرسکتاہوں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
قرآن حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ”میراث “کا تعلق آدمی کے مرنے کے بعدچھوڑے ہوئے ترکہ سے ہے،لہذامرحوم نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو اپنی زندگی میں جومکان عطیہ کیا تھا اوراسی طرح ایک بیٹی کوجو رقم عطیہ کی تھی اوراسی طرح اپنے دوبیٹوں کو جو ناقابل تقسیم دکان ہدیہ کی تھی اگر مرحوم نے یہ چیزیں مالکانہ حقوق کے ساتھ عملاً قابض بناکران کو دی تھی تو یہ ہبہ درست ہوا اور مذکورہ مکان بیٹے کا،دکان متعلقہ دوبیٹوں کا اوررقم بیٹی کی ملکیت ہوگئی تھی،لہذا یہ دوچیزیں مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوں گی،لیکن اس ہدیہ کے باوجود مرحوم کامذکورہ بیٹا،دکان والےدوبیٹے اورمکان والی مذکورہ بیٹی دوسرے ورثاء کے ساتھ باقی ترکہ میں اپنے شرعی حصوں کے حساب سے شریک ہوں گے، اس ہدیہ کی وجہ سے ان کی میراث نہ ختم کی جاسکتی ہے اورنہ اس میں کمی کی جاسکتی ہے۔
زندگی میں اولاد کو کچھ دینا ہبہ ہے، میراث کی تقسیم نہیں ،اورشرعاً اس کی اجازت ہےبشرطیکہ کسی کو محروم نہ کیاجائے،تاہم اس میں افضل یہ ہے کہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر دیاجائے اوران میں بلاشرعی وجہ تفریق نہ کی جائے ۔مسئولہ صورت میں آپ کے والدصاحب نے اولاد میں تفریق بھی کی ہے کیونکہ ایک بیٹی کوجیسے کہ آپ نے لکھا معمولی سی رقم دی ہےاورساتھ ساتھ تین کو عطیہ دیکراورچوتھی کوجومالی لحاظ سے بہترتھی نہ دیکر اس کومحروم بھی رکھاہے،آپ کے والد کا یہ عمل بھی شرعاً درست نہیں تھا ،افضل تو یہ تھاکہ آپ کے والد صاحب تمام بیٹوں اوربیٹیوں کودیتے اورکسی ایک کوبھی محروم نہ کرتے اوربرابرسرابر دیتے،ان میں تفریق نہ کرتے ، تاہم جب انہوں نے ایساکرہی لیا ہے اورسب کو دی جانےجانے والی اشیاء پر ان کا قبضہ بھی کرادیا تھاتووہ چیزیں ان کوملکیت ہوگئی تھیں،لہذا ان اشیاء میں والدکی فوت ہونے کی صورت میں ان کی میراث جاری نہیں ہوگی۔
اب آپ کےاصل سوال کا جواب یہ ہے کہ جب والد صاحب کی باقی ماندہ میراث آپ نے شرعی حصص کےحساب سےورثہ میں تقسیم کردی تو آپ کے ذمہ اب بہنوں کاتو کچھ دینا نہیں ،اس حوالے سےآپ بری ہیں، البتہ چونکہ آپ کے والد صاحب نے دادا سے جو زمین پائی تھی اورجو مکان ان کو ملاتھا ،اس میں چونکہ ان کی تین بہنوں کا حق بھی تھاجیسے کہ پہلے عرض کیا جاچکا اوراس میں سے آپ کے والد صاحب نے جومکان پایا تھا وہ فروخت کرکے اس کی رقم استعمال کرلی تھی جبکہ اس مٰیں تین بہنوں کا بھی حق تھا لہذا وہ حق آپ کےوالد پر دین بن گیا تھاجس کی ادئیگی آ پ کے والدکے ترکہ سے ضروری تھی جو نہیں ہوئی، لہذا جن جن کے پاس آپ کے والد کا ترکہ گیا ہے ان پر آپ کے داد ا کی تین بیٹیوں(یعنی آپ کے پھوپھیوں) کا حق ادا کرنا ضروری ہوگا ۔جس کا طریقہ یہ ہے مکان جتنے کا فروخت ہوا تھا اس کو چار پر تقسیم کریں (یہ تب ہے جب پوتوں کی دی جانے والی زمین بالغ ورثہ اپنے حصوں سے شمارکرلیں ورنہ پانچ پر تقسیم کریں) اورپھر جوجواب آئے تو اس کو آٹھ حصوں پر تقسیم کرکے اس میں دوحصے آپ ان تین پھوپھیوں کو ادا کردیں جس کو وہ تین حصوں میں تقسیم کرکےایک ایک حصہ رکھ لیں،اس طرح کرنےسے آپ کے ذمہ جو حق ہےوہ ادا ہوجائے گا،دوسرے بھائی بھی اسی طرح اپنے حصوں میں کریں اوربہنیں آٹھ میں سےایک حصہ دادا کی بیٹیوں یعنی اپنی پھوپھیوں کو دیں گی۔
حوالہ جات
وفی شرح السراجی فی تعریف الترکة ﴿ص۲۷﴾
کل مایترکہ المیت من اموال صافیة عن تعلق حق الغیر بعین منھا
وفی سنن سعيد بن منصور (١/ ١١۸)
«قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قطع ميراثا فرضه الله، قطع الله ميراثه من الجنة»
وفی شرح معاني الآثار - الطحاوي (4/ 84):
فقالوا ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في العطية ليستووا في البر ولا يفضل بعضهم على بعض فيوقع ذلك له الوحشة في قلوب المفضولين منهم.
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..." (ص:696, المكتبة الشاملة)
فی السنن الكبرى للبيهقي (۳/ ۵١٦):
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت عنده مظلمة لأخيه من عرضه، أو ماله؛ فليؤدها إليه قبل أن يأتي يوم القيامة، لا يقبل فيه دينار ولا درهم؛ إن كان له عمل صالح أخذ منه، وأعطي صاحبه، وإن لم يكن له عمل صالح أخذ من سيئات صاحبه؛ فحملت عليه ". رواه البخاري في الصحيح عن آدم بن أبي إياس، عن ابن أبي ذئب بمعناه إلا أنه قال: " فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم ".
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
24/12/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |