73730 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
مفتی صاحب، مجھے جنوری 2021 میں سرکاری نوکری ملی ہے جس میں مجھے تنخواہ 17668 روپے مل رہی ہے، مگر میرے پاس سوائے اپنے ذاتی گھر کے کچھ بھی نہیں۔ میرے اوپر کتنی زکوۃ بنے گی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زکوۃ واجب ہونے کے لیے صاحبِ نصاب ہونا اور نصاب پر سال گزرنا شرط ہے، زکوۃ میں قمری سال کا اعتبار ہوتا ہے، شمسی سال کا نہیں۔ موجودہ زمانے میں صرف سترہ اٹھارہ ہزار روپے نصاب نہیں بنتا۔ حکومتِ پاکستان نے سال 1442ھ (2021ء) کے لیے چاندی کا نصاب 80 ہزار 933 روپے مقرر کیا تھا، لیکن حکومت کا مقرر کردہ نصاب حتمی نہیں ہوتا؛ کیونکہ چاندی کی قمیت کم و بیش ہوتی رہتی ہے، البتہ اس سے ایک اندازہ ہوجاتا ہے، باقی اصل دار و مدار ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت ہے۔
لہٰذا جس قمری تاریخ کو آپ (اپنے اوپر واجب الاداء قرضے منہا کرنے کے بعد) ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر رقم کے مالک ہوجائیں، یا خالص نقد رقم تو اتنی نہ ہو لیکن مختلف اموالِ زکوۃ یعنی سونا، چاندی، مالِ تجارت اور نقد رقم کی مجموعی مالیت اتنی ہو تو اس تاریخ کو آپ صاحبِ نصاب بن جائیں گے (اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو اور کچھ نہ ہو تو پھر اس کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے)۔ پھر اگر سال پورا ہونے پر اگلی اسی قمری تاریخ کو بھی آپ کے پاس نصاب کے بقدر اموالِ زکوۃ موجود ہوئے تو اس دن موجود اموالِ زکوۃ کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) بطورِ زکوۃ دینا لازم ہوگا۔ سال کے درمیان میں نصاب کی کمی بیشی کی وجہ سے زکوۃ ساقط نہیں ہوگی، البتہ اگر کبھی سال کے درمیان نصاب بالکل ختم ہوجائے تو پھر زکوۃ کا سال بھی دوبارہ صاحبِ نصاب بننے کے بعد نئے سرے سے شروع ہوگا۔
اگر صاحبِ نصاب بننے کی تاریخ متعین طور پر یاد نہ ہو تو اچھی طرح سوچ بچار کے بعد جس تاریخ کے بارے میں غالب گمان ہو، وہی آپ کی زکوۃ کی تاریخ سمجھی جائے گی۔
حوالہ جات
سنن أبي داود (3/ 25):
عن علي، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "قد عفوت عن الخيل والرقيق، فهاتوا صدقة الرقة، من كل أربعين درهما درهما، وليس في تسعين ومئة شيء، فإذا بلغت مئتين ففيها خمسة دراهم".
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
27/ذو الحجہ /1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |