021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد میں قرآن کریم فروخت کرنا اور اس کے لیے جگہ دے کر اجرت لینا
73816وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ہمارے علاقے میں کچھ لوگ قرآن فروخت کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا قرآن ہم نے مکمل طور پر چیک کیا ہے، اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ وہ لوگ مسجد کمیٹی سے یہ اجازت مانگ رہے ہیں کہ مسجد میں کچھ وقت کے لیے قرآن کریم فروخت کرنے کے لیے ہمیں جگہ فراہم کی جائے۔ ہم چار سے پانچ بار اعلان بھی کریں گے کہ جن لوگوں کے پاس ایسے قرآن کریم ہیں جو شہید ہو گئے ہیں وہ ہمیں دے دیں یا اگر کسی کو جلد کروانی ہو تو ہم سے کروا لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی کو قرآن کریم خریدنا ہو تو ہم سے خرید لیں۔

اس کام کے بدلے کمیٹی اگر کچھ رقم ان سے لے کر مسجد میں خرچ کرتی ہے تو کیا یہ معاملہ جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حدود مسجد میں (یعنی اتنی جگہ میں جو نماز باجماعت کے لیے وقف ہوتی ہے) غیر معتکف کے لیے کسی قسم کی خرید و فروخت یا اجارے کا معاملہ کرنا شرعاً مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے۔ اسی طرح مسجد سے غیر متعلقہ کسی کام کے لیے مسجد میں اعلان کرنا بھی شرعاً جائز نہیں ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ نیز مسجد کے کسی حصے کو کرائے پر دینا اور اس کی اجرت لینا بھی شرعاً ناجائز ہے۔  لہذا سوال میں مذکور صورت میں اگر یہ قرآن کریم مسجد کی حدود میں فروخت کیے جاتے ہیں تو انہیں فروخت کرنا ، ان کے لیے جگہ دینا اور اس کے بدلے کوئی رقم لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اور اگر یہ ایسے حصے میں فروخت کیے جاتے ہیں جو حدود مسجد میں داخل نہیں ہے (بلکہ مسجد اور نمازیوں کی مختلف ضروریات کے لیے بنایا گیا ہے جیسے وضو خانہ، دروازے سے متصل حصہ وغیرہ) تو وہاں قرآن کریم کی خرید و فروخت ، اس کے لیے جگہ دینا اور اس کی رقم لینا جائز ہیں۔ البتہ مسجد میں اعلان کرنا بہرحال ناجائز ہے چاہے خرید و فروخت حدود مسجد میں ہو یا اس سے باہر ہو۔

حوالہ جات
قال الحصكفيؒ: "(وكره) أي تحريما لأنها محل إطلاقهم بحر (إحضار مبيع فيه) كما كره فيه مبايعة غير المعتكف مطلقا للنهي۔۔۔."
علق عليه ابن عابدينؒ: "له مطلقا) أي سواء احتاج إليه لنفسه أو عياله أو كان للتجارة أحضره أو لا كما يعلم مما قبله ومن الزيلعي والبحر (قوله للنهي) هو ما رواه أصحاب السنن الأربعة وحسنه الترمذي :أن رسول الله نهى عن الشراء والبيع في المسجد وأن ينشد فيه ضالة أو ينشد فيه شعر ونهى عن التحلق قبل الصلاة يوم الجمعة. فتح."
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 2/449، ط: دار الفكر)
 
عن أبي عبد الله، مولى شداد بن الهاد أنه سمع أبا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل لا ردها الله عليك فإن المساجد لم تبن لهذا.
(صحيح مسلم، 1/397، ط: دار احياء التراث العربي)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

29/ ذو الحج 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب