021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع فاسدمیں مبیع کے خرچہ کاحکم
73822خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ذیل مسئلہ کے بارے میں:

 خالد نے بکر پر حمل کی شرط سے گائے فروخت کیا،یعنی بکر نے اس شرط پر خریدا کہ یہ گائے حاملہ ہے،لیکن خریداری کے 2 مہینے بعد معلوم ہوا کہ گائے غیر حاملہ ہے،اب خالد اور بکر دونوں سودا فسخ کرنے پر راضی ہیں،اب دریافت طلب امر یہ ہےکہ بکر نے جو اپنے گھر پر دو مہینےیہ گائےپالاہے،اور اس پر جو مصارف آئے ہیں،فسخ کے وقت بکرخالد سے 2 مہینے کےمصارف کے مطالبے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟برائے کرم فقہی حوالہ جات کیساتھ  جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں بیع کے اندر ایسی شرط لگائی گئی تھی جس کی وجہ سے شروع سے ہی خرید وفروخت کا یہ معاملہ  درست نہیں تھا۔فریقین پر لازم تھا کہ اس معاملے کو فسخ کردیں،البتہ قبضہ کرنے کے بعد،معاملے کے ناجائز ہونے کے باوجود بھی ،چونکہ اس چیز پر خریدار کی ملکیت رہی ہے،اس لیے اس نے جو خرچہ کیا ہے وہ اپنی ملکیتی چیز پر کیا ہے،لہذا اب اس خرچہ کا مطالبہ فروخت کنندہ سے کرنا درست نہیں ہے۔تاہم فروخت کنندہ کو اخلاقی طور پر خرچے میں تعاون کرناچاہیے، تاکہ خریدنے والے کا بوجھ کچھ کم ہو۔

حوالہ جات
وفی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (11/ 209):
( ومنها ) الخلو عن الشروط الفاسدة وهي أنواع .
منها : شرط في وجوده غرر نحو ما إذا اشترى ناقة على أنها حامل ؛ لأن المشروط لا يحتمل الوجود والعدم ولا يمكن الوقوف عليه للحال ؛ لأن عظم البطن والتحرك يحتمل أن يكون لعارض داء أو غيره فكان في وجوده غرر فيوجب فساد البيع لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه { نهى عن بيع وغرر } والمنهي عنه فاسد وروى الحسن بن زياد عن أبي حنيفة رضي الله عنهما أن البيع بهذا الشرط جائز ؛ لأن كونها حاملا بمنزلة شرط كون العبد كاتبا أو خياطا ونحو ذلك وذا جائز فكذا هذا.
وفی فقہ البیوع( 2/254):
أ ن لایکون فی الوصف المشروط غرر،ومثلوہ بشراء شاة علی أ نھا تدر قدرا معینا من اللبن کل یوم،فیہ غرر،لأنہ لایعرف بیقین کم ستدر فی المستقبلولواشتری بقرة علی أ نھا حامل ،لم یجز فی ظاھرالروایة عند الحنفیة وعللہ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی بقولہ: إ ن المشروط یحتمل الوجود والعدم ،ولایمکن الوقوف علیہ للآحال ،لأن عظم البطن والتحرک یحتمل أ ن یکون لعارض داء أ و غیرہ۔
ومقتضی ھذالتعلیل أ  نہ  إ ن حصل التیقن بالحمل بالألات الجدیدة التی تصور مافی البطن من الحمل ،ینبغی أ ن یجوز ھذالشرط ،وروی الحسن بن زیاد عن أ بی حنیفة رحمہ اللہ  أ  ن البیع بھذالشرط جائز وذکر ابن الھمام رحمہ اللہ أن ھذا البیع جائز عند الشافعی رحمہ اللہ  فی الأصح۔
لدر المختار وحاشية ابن عابدين (5 / 88):
 (وَإِذَا قَبَضَ الْمُشْتَرِي الْمَبِيعَ بِرِضًا) عَبَّرَ ابْنُ الْكَمَالِ بِإِذْنِ (بَائِعِهِ صَرِيحًا أَوْ دَلَالَةً) بِأَنْ قَبَضَهُ فِي مَجْلِسِ الْعَقْدِ بِحَضْرَتِهِ (فِي الْبَيْعِ الْفَاسِدِ) (وَلَمْ يَنْهَهُ) الْبَائِعُ عَنْهُ وَلَمْ يَكُنْ فِيهِ خِيَارُ شَرْطٍ (مَلَكَهُ)  (بِمِثْلِهِ إنْ مِثْلِيًّا وَإِلَّا فَبِقِيمَتِهِ) يَعْنِي إنْ بَعْدَ هَلَاكِهِ أَوْ تَعَذُّرِ رَدِّهِ (يَوْمَ قَبَضَهُ) (وَ) يَجِبُ (عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فَسْخُهُ قَبْلَ الْقَبْضِ) (أَوْ بَعْدَهُ مَا دَامَ) الْمَبِيعُ بِحَالِهِ جَوْهَرَةٌ (فِي يَدِ الْمُشْتَرِي إعْدَامًا لِلْفَسَادِ) ؛ لِأَنَّهُ مَعْصِيَةٌ فَيَجِبُ رَفْعُهَا بَحْرٌ (فَإِنْ بَاعَهُ) أَيْ بَاعَ الْمُشْتَرِي الْمُشْتَرَى فَاسِدًا (بَيْعًا صَحِيحًا بَاتًّا) فَلَوْ فَاسِدًا أَوْ بِخِيَارٍ لَمْ يَمْتَنِعْ الْفَسْخُ  (لِغَيْرِ بَائِعِهِ) فَلَوْ مِنْهُ كَانَ نَقْضًا لِلْأَوَّلِ كَمَا عَلِمْت (وَفَسَادُهُ بِغَيْرِ الْإِكْرَاهِ) فَلَوْ بِهِ يَنْقُضُ كُلَّ تَصَرُّفَاتِ الْمُشْتَرِي (أَوْ وَهَبَهُ وَسَلَّمَ أَوْ أَعْتَقَهُ) (أَوْ رَهَنَهُ أَوْ أَوْصَى) أَوْ تَصَدَّقَ (بِهِ) نَفَذَ الْبَيْعُ الْفَاسِدُ فِي جَمِيعِ مَا مَرَّ وَامْتَنَعَ الْفَسْخ

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

یکم محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب