73858 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | ملازمت کے احکام |
سوال
زید نے اپنی جگہ میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا، اب عمر جو بھی چندہ آتا ہے، وہ اس چندہ میں سے مدرس صاحب کی تنخواہ ادا کرتا ہے، غالبا وہ مدرس صاحب کو 7000/سات ہزار روپے ماہانہ ادا کرتا ہے، اور خود 9000/نو ہزار ماہانہ لیتا ہے، سؤال یہ ہے کہ مدرس صاحب کی تنخواہ تو سب کو معلوم ہے، لیکن مفتی صاحب جو چندہ کرتا ہے، اسی میں سے اپنی تنخواہ بنا کسی کو بتائے اس نیت سے نکال لیتا ہے کہ یہ میرے ہوئے، اپنی تنخواہ نکال کر جو بھی پیسہ اس کے چندے کے ہیں وہ مدرسے میں ڈال دیتا ہے، لوگ سمجھتےہیں کہ اتنا ہی چندہ ہوا ہے، جبکہ اس چندے میں سے پہلے ہی مہتمم نے اپنی تنخواہ نکال لی، لوگوں کو معلوم نہیں کہ مہتمم صاحب بھی تنخواہ لیتے ہیں، کیا اس کا اس طرح سے تنخواہ بنا کسی کو بتائے لینا جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جب اعتماد کر کے اس کو مہتمم ومنتظم بنادیا گیا اورچندہ دینے والوں کو یہ بھی معلوم ہو کہ یہ اپنی ذمہ داری اجرت پر سر انجام دیتا ہےتو اس کے بعدنہ تو چندہ دینے والوں کے لیے اس بات کی تحقیق کی ضرورت ہے اورنہ ہی شرعی ضابطہ کی روسے خود اس کے ذمہ اس کا بتانا ضروری ہے کہ وہ کس قدر تنخواہ لیتا ہے؟البتہ خود مہتمم صاحب کے لیے اپنی ذمہ داری اور کام کے اعتبار سے معروف مقدار سے زیادہ تنخواہ لینا جائز نہیں، نیزمہتمم کو چاہئے کہ اپنی تنخواہ خود طے کرنے کے بجائے شوری کے ارکان یا چندہ دینے والوں میں سے ذمہ دار افراد کے مشورہ سے اپنے کام کی نوعیت اور وقت کے اعتبارسےاجرت کومتعین کرلے،اس لیے کہ مظنہ تہمت سےبچانابھی ضروری ہے۔
(جامع الفتاوی:ج۴،ص۳۲۸)
حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔
نواب الدین
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۳محرم ۱۴۴۲ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نواب الدین | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |