73892 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
قاری محمد عبد اللہ اورمولاناعبیداللہ نے ملکرسات مرلہ زمین ملک نذیر احمد گھلوسے خریدی اورکھاتہ نمبر227میں مشترکہ طورپراس سات مرلہ زمین کا انتقال کیاگیا اورملک نذیر احمد نے قبضہ بھی دیدیا،اس کےچند ماہ کے بعد قاری محمد عبد اللہ نے چالیس مرلہ زمین ملک ربنوازسے خریدی اورکھاتہ نمبر 225میں قاری محمد عبد اللہ کے نام اس کاانتقال کرایا جس میں سے بتیس مرلے زمین کا پتہ آسانی سے چل گیا اوراس پر قبضہ بھی دے دیا اوربقیہ آٹھ مرلے تلاش کرتے کرتے جب حکومتی ریکارڈ تک رسائی ہوئی تو پتہ چلا کہ جو سات مرلے ملک نذیر احمد نے فروخت کرکےقبضہ میں دیئے تھے حقیقت میں وہ کھاتہ نمبر 225ہے اورربنوازکی ملک ہے،ملک نذیراحمدنےاپنے خریداروں کو غلظ زمین قبضےمیں دی تھی، چنانچہ اس حوالے سے جامع مسجد محمدیہ میں ہتھیجی میں پنچائیت ہوئی جس میں نذیراحمد گھلونے یہ تسلیم کیاکہ یہ ساتھ مرلےمیرے نہیں تھے ،مجھ سے غلطی فہمی میں یہ ہوا ہے،اس لیے انہوں ان سات مرلوں کی جگہ دوسری جگہ پر سات مرلے زمین کھاتہ نمبر 227کے تحت دیکرقبضہ میں بھی دیدی۔
اب سوال یہ ہے کہ مولاناعبیداللہ صاحب پہلے والے ان سات مرلوں میں شریک ہیں جن کا کھاتہ نمبر227کے تحت مشترکہ اندراج اورانتقال ہے؟یا دوسرے والے سات مرلوں میں جن کا کھاتہ نمبر225 کےتحت صرف قاری عبد اللہ کےنام اندراج ہواہے،واضح رہےکہ پہلے والے سات مرلوں کی قیمت زیادہ ہے جبکہ بعد والے سات مرلے نسبتاً کم قیمت کے ہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ ملک نذیراحمد نے بلااجازت ملک ربنوازکی سات مرلےزمین فروخت کی ہے،لہذا معلوم ہونے کے بعد خریدار قاری محمد عبد اللہ اورمولاناعبیداللہ کودواختیارہونگے،چاہیں تو وہ زمین واپس کرکے اپنی سابقہ قیمت لے لیں اوراس صورت میں شرکت کامعاملہ ختم ہوجائے گا اوریہ سات مرلے واپس ہوکر پھر دوسری خریدی کی وجہ سے قاری عبداللہ کی ملک ہوجائیں گے۔یا اگروہ زمین واپس نہیں کرناچاہتےہیں تو متبادل زمین جو ملک نذیرنے دی ہے اس کوقبول کرلیں،اس صورت میں اس دوسری متبادل زمین میں قاری محمد عبد اللہ اورمولاناعبیداللہ شریک ہوجائیں گے،بہرحال مولاناعبیداللہ کی شرکت اگرہوگی تو دوسری متبادل کے طورپر ملنے والی زمین میں ہوگی، پہلے والی زمین میں نہیں ہوگی ،اس لیے کہ وہ نذیراحمد کی ملک ہی نہیں تھی تاکہ ان سے خریداریعنی قاری محمد عبد اللہ اورمولاناعبیداللہ کی طرف ملکیت منتقل ہوسکے۔
البتہ اگرملک ربنواز اس بیع کی جازت دیدے اوراس کی جگہ قاری عبیداللہ کو راضی کرکےمتبادل جگہ دیدے اوروہ بھی اس پر راضی ہوجائے تو پھر مولاناعبیداللہ پہلے والے سات مرلوں میں شریک ہوسکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ اگرملک ندیراحمد نے جان بوچھ کرملک ربنوازکی زمین ان کی اجازت کے بغیرفروخت کی تھی تو اس نے دھوکہ دیاہے جس پروہ سخت گناہگارہوئے، لہذا ان پر توبہ اوراستغفارراورخریداروں سے معافی مانگناضروری ہے،اوراگرواقعةً ان کو کوئی غلط فہمی ہوئی تھی جیسے کہ سوال میں لکھاگیاہےتوپھرگناہگارتووہ نہیں ہوئے،تاہم چونکہ خریداروں کو بہرحال اس سے دھوکہ ہوا ہے،لہذا اس بناء پراگرخریدارمتبادل زمین قبول نہ کریں تو وہ یہ زمین سابقہ قیمت پر واپس بھی کرسکتے ہیں اورمتبادل بھی قبول کرسکتےہیں۔
حوالہ جات
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 204)
لو مستحقا ظهرفی المبيع ... له على بائعه الرجوع بالثمن الذي له قد دفع.
وفی الأشباه والنظائر - حنفي - (ج 1 / ص 374)
إذا انعقد البيع لم يتطرق إليه الفسخ إلا بأحد أشياء : خيار الشرط وخيار عدم النقد إلى ثلاثة أيام وخيار الرؤية وخيار العيب وخيار الاستحقاق وخيار الغبن وخيار الكمية وخيار كشف الحال وخيار فوات الوصف المرغوب فيه وخيار هلاك بعض المبيع قبل القبض وبالإقالة والتحالف وهلاك المبيع قبل القبض وخيار التغرير الفعلي كالتصرية على إحدى الروايتين وخيار الخيانة في المرابحة والتولية وظهور المبيع مستأجرا أو مرهونا فهذه ثمانية عشر سببا وكلها يباشرها العاقد إلا التحالف فإنه لا ينفسخ به وإنما يفسخه القاضي وكلها يحتاج إلى الفسخ ولا ينفسخ فيها بنفسه وقدمنا فرق النكاح في قسم الفوائد.
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار (۷/ ۴۴۹)
شری دارا وبنی فیہا، فاستحقت رجع بالثمن وقیمۃ البناء مبنیا علی البائع إذا سلم النقض إلیہ یوم تسلیمہ، وتحتہ في الشامیۃ: متعلق بقیمۃ، فلو سکن فیہ وانہدم بعضہ أو زادت قیمتہ یرجع علیہ بقیمۃ البناء یوم التسلیم۔ (شامي، کتاب البیوع، باب الاستحقاق، زکریا ۷/ ۴۴۹، کراچی ۵/ ۲۰۵)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 13 / ص 178)
فصل الاستحقاق: شرى فبنى فاستحق نصفه ورد المشتري ما بقي على البائع فله أن يرجع على بائعه بثمنه وبنصف قيمة البناء لانه مغرور في النصف،
وفی مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (ج 6 / ص 222)
( ويطالب ) بفتح اللام ( به ) أي بالثمن في الوكالة بالشراء فيما اشترى ( ويرجع ) على صيغة المبني للمفعول ( به ) أي بالثمن ( عند الاستحقاق ) أي استحقاق ما باع.
وفی فتح القدير - (ج 15 / ص 373)
البيع متى ينفسخ أقوال : قيل إذا قبض المستحق ، وقيل بنفس القضاء ، والصحيح أنه لا ينفسخ ما لم
يرجع المشتري على بائعه بالثمن ، حتى لو أجاز المستحق بعدما قضى له أو بعدما قبضه قبل أن يرجع المشتري على بائعه يصح .
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
8/1/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |