021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرومائیٹ اورکاپر پرخمس کا حکم
73873زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

ہمارے علاقے شمالی وزیرستان میں گاؤں "محمدخیل" کے پہاڑمیں قیمتی معدنیات مثلاً: کرومائٹ اورکاپروغیرہ پائے جاتے ہیں ،یہ پہاڑ ملکیت توقوم "محمد خیل" کی ہے مگرمعدنیات سرکارکے زیرتسلط ہے اورقوم اس میں بے اختیارہے جن میں  FWOکمپنی کام کررہی ہے اورتمام خرچےیہی کمپنی برداشت کررہی ہےاورقوم "محمد خیل" کو ایگریمنٹ کے تحت صرف 26فیصد منافع وقتاً فوقتاً دے رہاہے،اب مجھے درج ذیل امورکے بارے میں دریافت کرناہے۔

١١۔ مذکورہ معدنیات کاپر اورکرومائٹ میں خمس واجب ہے یا نہیں ؟

۲۔ اگر خمس واجب ہوتو یہ خمس صرف کمپنی والوں پر واجب ہے یا قوم پر بھی واجب ہوگا جبکہ قوم کو صرف 26فیصد منافع دیاجاتاہے ۔

۳۔ کاپر اورکرومائٹ دونوں پر خمس واجب ہے یا صرف ایک پر واجب ہے؟

۴۔ اس کا مصرف مالِ غنیمت کی طرح ہے یا عشروزکاة کی طرح ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے زمین سے نکلنے والی معدنیات کی تین اقسام بیان کی ہیں:

  1. وہ جامد چیز جو آگ پر پگھلانے سے پگھل جاتی ہو، جیسے سونا، چاندی،لوہا اور پیتل وغیرہ۔
  2. وہ جامد چیز جو آگ پر پگھلانے سے نہیں پگھلتی، جیسے چونا، سُرما اور مختلف اقسام کے پتھر وغیرہ۔
  3. مائع اورسیال چیز، جیسے پیٹرول اور تارکول وغیرہ۔

مذکورہ بالا تینوں اقسام میں سے پہلی قسم پر خمس واجب ہے، خواہ یہ چیزیں آدمی کی ذاتی زمین سے نکلیں یا غیر مملوکہ زمین سے، بہر صوت خمس واجب ہو گا،اور بقیہ دونوں قسم کی معدنیات پر کچھ واجب نہیں ہے۔

کرومائیٹ اورکاپر کا تعلق پہلی قسم کی معدنیات سے ہے، کاپر کا پہلی قسم سے ہوناتوواضح ہے ،جہاں تک کرومائٹ کا تعلق ہے تو وہ بھی اسی پہلی قسم سے تعلق رکھتاہے اس لیے کہ یہ ایک ایسی جامد دھات ہے جو2190 تا 2270ڈگری سنٹی گريڈ (3970 تا 4120 ڈگري فارن ہائیٹ)كے  درجہ حرارت پر پگھل جاتی ہے اورجامد،پگھلنے والی اشیاء میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے خمس (پانچواں حصہ) کو واجب قرار دیا ہے، لہذاان دونوں میں خمس واجب ہو گا ۔

۲۔ یہ خمس کمپنی اور قوم دونوں پر ان کے حصوں کے تناسب سے واجب ہو گا، یعنی جس کے حصے میں جتنا کرومائیٹ آئے گا وہ اپنے حصے کا خمس نکالنے کا ذمہ دار ہو گا۔

۳۔دونوں پر واجب ہے۔

۴۔چونکہ یہ خمس ہے زکوة وعشرنہیں،لہذا اس کا مصرف بھی  مالِ غنیمت والا ہوگا ۔اس لیے کہ فقہاء نےخمس واجب ہونے کی علت یہ بیان کی ہے کہ معدنیات والی زمینیں کفار کی ملکیت تھیں پھر بعد میں مسلمانوں نےان پر قبضہ حاصل کیا ہے،لہٰذا یہ غنیمت کی طرح ہوئیں اورجب غنیمت کی طرح ہوئیں تو ان کامصرف بھی غنیمت والاہوگا

یہ بات واضح رہے کہ کافروں سے مسلمانوں کو ملنے والی زمین میں بعض معدنیات میں خمس واجب ہونے کے لیے مسلمانوں کا کافروں سے جنگ کرناضروری نہیں ہے بلکہ اگر مسلمان کوئی زمین صلحا ً کافروں کے قبضہ میں برقرار رہنے دیں پھر ان سے کسی مسلمان کو ملے تو کافر سے مسلمان کو ملنے کی علت اس صورت میں بھی پائی جارہی ہے لہٰذا ایسی معدنیات میں خمس واجب ہوگا۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (2/ 211) دارالفکر، بیروت:
اعلم أن المستخرج من المعادن أنواع ثلاثة منها جامد يذوب وينطبع كالذهب والفضة والحديد والرصاص والنحاس، ومنها جامد لا يذوب بالذوب كالجص والنورة والكحل والزرنيخ، ومنها مائع لا يجمد كالماء والزئبق والنفط. فأما الجامد الذي يذوب بالذوب ففيه الخمس عندنا۔
العناية شرح الهداية (2/ 233) دار الفكر، بیروت:
(معدن ذهب أو فضة) المستخرج من المعادن أنواع ثلاثة: جامد يذوب وينطبع كالذهب والفضة
 والحديد والرصاص والصفر، وجامد لا يذوب كالجص والنورة والكحل والزرنيخ، ومائع لا يتجمد كالماء والقير والنفط. إما أن يكون على ضرب أهل الإسلام، أو على ضرب أهل الجاهلية، واشتبه الحال. ففي الأول وهو ما يذوب ويتطبع إذا (وجد في أرض عشر أو خراج الخمس عندنا.
الفتاوى الهندية (1/ 185) دارالفکر، بیروت:
وأما المائع كالقير والنفط والملح، وما ليس بمنطبع، ولا مائع كالنورة والجص والجواهر واليواقيت فلا شيء فيها كذا في التهذيب....وإن وجد في أرض مملوكة اتفقوا جميعا على وجوب الخمس فيه واختلفوا في أربعة أخماسه قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - هي لصاحب الخطة كذا في شرح الطحاوي.
وفی فتاوی عالمگیریة(1/ 185)
" أَمَّا الْمُنْطَبِعُ كَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْحَدِيدِ وَالرَّصَاصِ وَالنُّحَاسِ وَالصُّفْرِ فَفِيهِ الْخُمُسُ كَذَا فِي التَّهْذِيبِ سَوَاءٌ أَخْرَجَهُ حُرٌّ أَوْ عَبْدٌ أَوْ ذِمِّيٌّ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ امْرَأَةٌ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأَخْذِ وَالْحَرْبِيُّ الْمُسْتَأْمَنُ إذَا عَمِلَ بِغَيْرِ إذْنِ الْإِمَامِ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَيْءٌ، وَإِنْ عَمِلَ بِإِذْنِهِ فَلَهُ مَا شَرَطَ ".
وفی  رد المحتار
:" أَنَّ مَعْدِنَ الْأَرْضِ الْمَمْلُوكَةِ جَمِيعَهُ لِلْمَالِكِ سَوَاءٌ كَانَ هُوَ الْوَاجِدَ أَوْ غَيْرُهُ"۔ ]رد المحتار3/305
الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني (2/ 132):
قلت أرأيت الرجل يجد الركاز في دار الرجل فيتصادقان جميعا أنه ركاز قال هو للذي يملك رقبة الدار وفيه الخمس قلت أرأيت إن كان الذي وجده قد استأجر الدار من صاحبها أو استعارها قال وإن كان فهو لصاحب الدار.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

8/1/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب