021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے نیچے تعمیر کردہ مدرسہ میں اجرت پر قرآن پڑھانا
73891نماز کا بیانمسجدکے احکام و آداب

سوال

ایک شخص نے دو منزل مسجد (یعنی تعمیر) بنائی، پہلی  منزل (سائل نے فون پر بتایا کہ پہلی منزل سے زمینی منزل مراد ہے) میں اس نے مدرسے کی نیت کی اور صراحۃً بھی کہا کہ یہ منزل میں نے مدرسہ کی نیت سے بنائی ہے۔ اب اگر اسی منزل میں ایک استاذ جو کہ اسی مسجد کا امام ہو اور اس کی کوئی تنخواہ نہ ہو، بچوں کو اجرت پر حفظ و ناظرہ کی پڑھائی شروع کردے، تو اس کے لیے یہاں اجرت پر پڑھائی جائز ہے یا نہیں؟

تنقیح: سائل کے بھائی اس مسجد کے امام ہیں، اور والد صاحب مسجد کے بانی۔ سائل کے بڑے بھائی نے فون پر سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمین ہماری اپنی ملکیت تھی۔ زمین روڈ سے نیچے تھی۔ والد صاحب نے یہ جگہ بنانے سے پہلے ہی کہا کہ زمین پر ایک منزل مدرسہ بنالیں گے جس میں میرے بچے پڑھائیں گے اور اس کے اوپر روڈ کے برابر مسجد بنالیں گے۔ چنانچہ پہلے مدرسہ کی نیت سے زمینی منزل کی تعمیر ہوئی، اس میں نمازیں نہیں پڑھی گئیں، مدرسہ وقف بنایا ہے، ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ پھر چھ مہینے بعد اس کے اوپر مسجد کے لیے منزل تعمیر کی گئی اور اس میں نمازیں پڑھی جانے لگیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق چونکہ زمین دینے والے نے مسجد بنانے سے پہلے ہی زمینی منزل وقف مدرسہ کی نیت سے تعمیر کی ہے، مسجد کی نیت سے نہیں۔ اس لیے یہ منزل مدرسہ ہے، مسجد نہیں ہے۔ اس میں اجرت پر تعلیمِ قرآن بلا کراہت درست ہے۔ اور چونکہ مدرسہ وقف ہے، اس لیے اس کے اوپر مسجدِ شرعی کی تعمیر سے کوئی امر مانع نہیں، اوپر والی منزل مسجدِ شرعی شمار ہوگی۔

 (باستفادۃٍ من امداد الفتاویٰ:2/661-657)

حوالہ جات
الدر المختار (4/ 357):
( وإذا جعل تحته سردابا لمصالحه ) أي المسجد ( جاز ) كمسجد القدس…… فرع: لو بنى
فوقه بيتا للإمام  لا يضر؛ لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع، ولو قال
                                  عنیت ذلك لم یصدق، تاترخانیة.
التحریر المختار لرد المحتار المعروف ب "تقریرات الرافعی" (2/80):
(قول المصنف لمصالحه) لیس بقید، بل الحکم کذلك إذا کان ینتفع به عامة المسلمین علی ما أفاده فی غایة البیان حیث قال: أورد الفقیه أبو اللیث سؤالًا و جوابًا فقال:
فإن قیل: أ لیس مسجد بیت المقدس تحته مجتمع الماء و الناس ینتفعون به؟ قیل: إذا کان تحته شیئ ینتفع به عامة المسلمین یجوز؛ لأنه إذا انتفع به عامتهم صار ذلك لله تعالیٰ أیضًا اھ.
و منه یعلم حکم کثیر من مساجد مصر التی تحتها صهاریج و نحوها.
البحر الرائق (5/ 271):
قوله ( ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه ) لأنه لم يخلص لله تعالى؛ لبقاء حق العبد متعلقا به……. وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله  تعالی{ وأن المساجد لله } الجن 18، بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد؛ فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس.  هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية .  وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجدا؛ لأنه من المصالح.  

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

8/محرم الحرام /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب