021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولاد کے لیے مال وجائداد کی وصیت
73898وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ایک صاحب کے صرف 2 بیٹے ہیں،84 سال ان کی عمر ہوگئی ہے ،اس لیے اپنی جائداد کے بارے میں وصیت لکھنا چاہتے ہیں۔

1۔ایک گھر ہے جو کہ والدہ کے نام ہے ،یعنی ان کی بیوی کے نام ہے۔

2۔بڑے بیٹے کے 2بچے ہیں ،ایک بیٹا ،ایک بیٹی۔

3۔چھوٹے بیٹے کے ہاں اولاد نہیں ہوئی ،اس لیے ایک لڑکا ہے  جو لےپالک ہے۔

4۔کچھ بینک بیلنس ہے۔

برائے مہربانی اس کی تقسیم بتادیں کہ کیسے ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اولاد کےلیے مال و جائداد کی وصیت نہیں کی جاسکتی ،اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ زندگی میں  اپنا مال و جائیداد ورثہ کے درمیان برابر طور پرتقسیم کردی جائے،یہ ہدیہ شمار ہوگا،اس میں فقط نام کردینا کافی نہیں،بلکہ ہر ایک کو اس کا حصہ حوالے کرکے قبضہ دیاجائے اس طور پر  کہ اس جائیداد سےاپنے تصرفات ختم کرکے ، اس کے تمام حقوق اور سارے متعلقہ امور سے دستبردار ہوکرورثہ کے حوالے کردیا جائے،احناف کے نزدیک عام حالات میں اولاد کو ہدیہ دینے میں برابری مستحب ہے،بلاوجہ کسی کو کم کسی کو زیادہ دیادہ دینا مکروہ ہے،البتہ کسی معقول وجہ ، مثلا دینداری،خدمت،تنگ دستی وغیرہ کی بناء پر کسی ایک کو زیادہ دے دینا بھی بلا کراہت جائز ہے۔نیز اگر اولاد میں سے کوئی ایک یا سب بے دین ہوں اور اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ والد کے مال کے کو ناجائز کاموں میں استعمال کریں گے تو انہیں ضرورت سے زیادہ نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ ضرورت کے بقدر دے کر بقیہ مال کو خیر کے کاموں میں صرف کردینا بہتر ہے۔پوتے وارث نہیں ،اس لیے ان کو دینا ضروری نہیں ہے۔

حوالہ جات
"المبسوط للسرخسي "(12/ 56):
"فالمذهب أنه ينبغي للوالد أن يسوي بين الأولاد في العطية عند محمد - رحمه الله - على سبيل
الإرث للذكر مثل حظ الأنثيين، وعند أبي يوسف - رحمه الله - يسوى بين الذكور والإناث قال: - عليه الصلاة والسلام - «ساووا بين أولادكم حتى في القبل، ولو كنت مفضلا أحدا لفضلت الإناث»:" .
"بدائع الصنائع "(6/ 127):
"وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.
وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة".
"الدر المختار " (5/ 696):
"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ".

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

14/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب