021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پراپرٹی ڈیلرز کی رقم ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ہو نے والے نقصان کا حکم
73948خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

پراپرٹی ڈیلرز عام طور پر ایک زمین کی بیع کر کےآدھی رقم ادا کر دیتے ہیں اور پھر قبضہ لے کر آگے بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب بقایا رقم ادا کرنے کا وقت آتا ہے تو بعض اوقات ڈیلر کی طرف سے بقایا رقم ادا کرنے میں ٹال مٹول شروع ہو جاتی ہے اور رقم اتنی لیٹ ہو جاتی ہے کہ اتنے عرصے میں زمین کی قیمت دوگنی سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ پھر مالک کہتا ہے کہ یا بقایا رقم کے بقدر مجھے زمین واپس دے دی جائے، یا اس کی قیمت بڑھا دی جائے اور یا اس کا دوبارہ سودا کیا جائے۔ یہ امر واقع ہے کہ اس دوران ڈیلر کو حد سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے اور تاخیر بھی اس کی طرف سے ہوتی ہے بلکہ بعض ڈیلر خود زمین میں کوئی مقدمہ بنا لیتے ہیں تاکہ بقایا رقم کا مطالبہ نہ ہو سکے۔ صورت مذکورہ میں نقصان کے ازالے کی جائز اور ممکنہ صورتیں کیا ہو سکتی ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور صورت میں اگر زمین کی بیع حقیقۃً ہوئی ہو،وعدہ بیع (Agreement to sale) نہ ہوا ہو تو بیع کے بعد مشتری (خریدار) زمین کا مالک ہو جاتا ہے اور اس کے لیے آگے فروخت کرنا جائز ہوتا ہے۔ زمین کی باقی رقم مشتری پر دین  ہوتی ہے اور اگر وہ مشتری مال دار ہے تو رقم کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا اس کی جانب سے بائع (فروخت کنندہ) پر ظلم اور شرعاً ناجائز ہے ۔ لیکن بائع کے لیے رقم کی عدم ادائیگی کی بنا پر مشتری کی رضامندی کے بغیر زمین واپس لینا، اس کا دوبارہ سودا کرنا یا اس دین پر کوئی اضافی رقم لینا  جائز نہیں ہے۔  نقصان کے ازالے کے لیے بائع مشتری سے کوئی چیز اس شرط کے ساتھ بطور رہن لے سکتا ہے کہ اگر مشتری رقم کی ادائیگی نہیں کرے گا تو بائع اس کی جانب سے اس چیز کو فروخت کرنے اور اس سے اپنا دین وصول کرنے کا وکیل ہوگا۔

حوالہ جات
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: مطل الغني ظلم، وإذا أتبع أحدكم على مليء فليتبع.
(موطا الامام مالک، 2/383، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، حدیث: 2674)
(وتتوقف على قبول الآخر) في المجلس ولو كان القبول (فعلا) كما لو قطعه أو قبضه فور قول المشتري أقلتك؛ لأن من شرائطها اتحاد المجلس ورضا المتعاقدين أو الورثة أو الوصي وبقاء المحل القابل للفسخ بخيار۔۔۔.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 5/122، ط: دار الفكر)
و لذلك صرحوا بأنه لا عبرة عند تحديد التعويض بما يسمى "الفرصة الضائعة" (Opportunity Cost) و المراد من اعتبار الفرصة الضائعة أن المتخلف فوت عليه فرصة الاسترباح، فيجب عليه أن يدفع إليه الربح الذي كان يتوقعه بتنفيذ الوعد.و معنى عدم اعتبار "الفرصة الضائعة" أنه لايجوز أن يطالب المتخلف بالتعويض إن حصل على تكلفته ببيع بضاعته في السوق فعلاً.
(فقه البيوع  على المذاهب الاربعة، 1/112، ط: مكتبة معارف القرآن)
وشرعا (حبس شيء مالي) أي جعله محبوسا لأن الحابس هو المرتهن بحق يمكن استيفاؤه) أي أخذه (منه) كلا أو بعضا كأن كان قيمة المرهون أقل من الدين (كالدين) كاف الاستقصاء لأن العين لا يمكن استيفاؤها من الرهن إلا إذا صار دينا حكما كما سيجيء (حقيقة) وهو دين واجب ظاهرا وباطنا أو ظاهرا فقط كثمن عبد أو خل وجد حرا أو خمرا (أو حكما) كالأعيان (المضمونة بالمثل أو القيمة)۔۔۔.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/478، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

14/ محرم الحرام 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب