73949 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
زمین کی خریداری میں ابتدائی معاملہ ہونے کے بعد بعض اوقات مالک کی جانب سے ٹال مٹول شروع ہو جاتی ہے کہ وہ قبضہ نہیں دیتا اور اس دوران قیمت کافی بڑھ جاتی ہے۔ بعض اوقات سالوں بعد تصفیے کی نوبت آتی ہے تو مالک سابقہ رقم واپس دینا چاہتا ہے جب کہ خریدار موجودہ رقم کے حساب سے رقم مانگتا ہے۔ خریدار کو یہ نقصان ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ سالوں تک اس زمین کو نہ استعمال کر سکا اور نہ بیچ سکا، حتی کہ بیع کے وقت جو مٹیریل کم قیمت پر مل رہا ہوتا ہے وہ بھی اب مہنگا ہو گیا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں نقصان کے ازالے کی کون سی صورت جائز ہے اور کون سی ناجائز؟ اور مالک نے جو منافع لوگوں کو پھنسا کر ان کی رقم سے کمایا ہے وہ اس کے لیے حلال ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں مذکور صورت میں اگر زمین کی بیع حقیقتاً ہوئی ہو، وعدہ بیع (Agreement to sale) نہ ہوا ہو تو بیع کے بعد مشتری (خریدار) زمین کا مالک ہو جاتا ہے اور بائع (فروخت کنندہ) کی ملکیت اس زمین سے ختم ہو جاتی ہے۔ اب اگر خریدار چاہے تو وہ بائع کو یا کسی بھی شخص کو یہ زمین زیادہ قیمت پر فروخت کر سکتا ہےاور بائع اسے سابقہ قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ نیز اس زمین کی فروخت کے لیے خریدار کا اس پر قبضہ ہونا بھی شرعاً ضروری نہیں ہے۔ اس مدت کے دوران اگر بائع نے زمین اجارے پر دی ہو یا کسی اور طرح کوئی منافع کمایا ہو تو وہ بھی خریدار کا ہوگا اور بائع کے لیے اسے استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
و كذلك يجوز البيع الثاني باتفاق الفقهاء إن كان بمثل الثمن الأول أو بأكثر منه، لانتفاء كونه وسيلة إلى الربا. و إنما الممنوع البيع بأقل، أو بمثل قيمته بزيادة الأجل۔۔۔.
(فقه البيوع على المذاهب الاربعة، 1/536، ط: مكتبة معارف القرآن)
محمد اویس پراچہ
دار الافتاء، جامعۃ الرشید
14/ محرم الحرام 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس پراچہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |