021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث کی تقسیم اور بیٹے کے نام مکان کی گفٹ ڈیڈ بنانے کا حکم
73936میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں:

میرا نام "عامر احمد خان" ہے۔ ہم تین بھائی )سب سے بڑے "محمد طاہر" ان کے بعد "شاہد احمد"( اور تین بہنیں )سب سے بڑی بہن " طاہرہ" ان کے بعد "شہناز"  اور ان کے بعد " شاہین") تھیں۔  2001 میں بڑے بھائی محمد طاہر کا انتقال ہوا۔ 2006 میں ہماری بہن شاہین  کا انتقال ہوگیا جو کہ غیر شادی شدہ تھیں۔ 2010 میں والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا ۔   2018 میں والد صاحب کا انتقال ہوا۔ اب ہم دو بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں جس میں سے ایک بہن غیر شادی شدہ ہیں اور میری زیر کفالت رہتی ہیں۔

1980 میں ہمارے والد صاحب کی مدینہ موٹرز کے نام سے ایک شاپ تھی جو نارمل چل رہی تھی، لیکن کچھ عرصے بعددکان کا کام بڑھ گیا تو والدصاحب نے بڑے بھائی شاہد سے کہا کہ ملازمت چھوڑ کر دکان پر آجائیں ۔ شاہد کے دکان پر آنے کی وجہ سے کام خوب چمکا اور بہت عروج پکڑ لیا تو والد صاحب نے دوسرے بھائی محمد طاہر سے بھی ملازمت چھڑوا لی اور دکان پر کام میں لگا دیا۔ میں اس وقت تعلیم حاصل کر رہا تھا، اس لیے میں نے اس دکان پر والد صاحب کے ساتھ کام نہیں کیا۔  ہماری جوائنٹ فیملی تھی، گھر کے اخراجات اسی دکان سے چلتے تھے، بھائیوں کی شادیاں اس وقت نہیں ہوئی تھیں، البتہ جیب خرچ بھی دکان سے ہوتا تھا۔ تقریباً  1986 میں اسی دکان کی کمائی سے والد صاحب نے چھ لاکھ دس ہزار  روپے کا مکان خریدا ۔ اور والد صاحب نے وہ گھر چار پارٹنر )یعنی ہم تین بھائیوں اور اپنے ( کے نام کر لیا۔ 1994 میں خسارے کی وجہ سے مدینہ موٹرزتقریباً بند ہوگئی اور دو سال کے اندر اندر اس دکان کو فروخت کردیا۔    

2001 میں ہمارے بڑے بھائی محمد طاہر  کا انتقال ہوگیا، اس وقت ان کے دو بچے تھے۔ ہماری بھابھی نے اپنے شوہر کی وفات کے تقریباً ایک سال بعد جائیداد میں  اپنے حصے کا مطالبہ کیا تو والد صاحب نے ان کے مطالبے پر چھ لاکھ دس ہزار  روپے میں خریدا گیا مکان 18 لاکھ میں فروخت کردیا  اور بھابھی کو ساڑھے چار لاکھ  روپے ادا کردیے۔

میرے بھائی شاہد احمد  نے والد صاحب سے کہا کہ چونکہ دکان میں سب سے زیادہ محنت میری تھی لہذا مجھے اس فروخت کیے گئے مکان کے پیسوں میں سے باقی بھائیوں کی بنسبت زیادہ دئیے جائیں تو والد صاحب نے اس بھائی کو پانچ لاکھ روپےدے دئیے۔  اور پھر ہماری اسی بھائی نے بیوہ بھابھی سے شادی کر لی اور اپنے لیے الگ گھر لے کر اس میں رہنے لگے۔ بھابھی اور بھائی کو ان کا حصہ دینے کے بعد والد صاحب نے بھائی اور بھابھی سے الگ الگ سٹام پیپر پر یہ لکھ کر سائن لیے کہ تم دونوں جائیدا میں سے اپنا حصہ لے چکے ہو، لہذا میری آئندہ کسی بھی جائیداد میں تم دونوں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ) لیکن بھائی نے  اب 2021 میں بہن سے کہا ہے کہ چونکہ وہ اسٹام پیپر انگریزی میں تھا اور میں انگریزی  اس قدر نہیں جانتا تھا، بس میں نے تو بغیر سوچے سمجھے سائن کیے تھے۔(

اسی دوران 2001 میں بندہ " عامر احمد خان" UK چلا گیااور حسب ضرورت والد صاحب کو پیسے بھجواتا رہا۔ جبکہ بھائی اور بھابھی کا حصہ ادا کرنے کے بعد والد صاحب نے مجھ سے کہا کہ باقی بچ جانے والے ساڑھے آٹھ لاکھ روپے میں سے ساڑھے چار لاکھ آپ کے ہیں، لیکن میں UK میں تھا، اس وقت میرا کوئی اکاؤنٹ بھی نہیں تھا، اس لیے وہ پیسے والد صاحب نے اپنے ہی اکاؤنٹ میں رکھے۔ پھر والد صاحب نے مجھ سے کہا کہ آج کل پلاٹوں کی قیمت بڑھ رہی ہے تو ان سے پلاٹ لے لیتے ہیں، میں کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ والد صاحب نے باقی بچ جانے والے ساڑھے آٹھ لاکھ روپے میں سے تین لاکھ کا ایک پلاٹ خرید لیا ،  اور تقربیاًایک لاکھ روپے کے شیئرز خرید لیے ، اور تقریباً ایک لاکھ روپے گھر میں مختلف ضروریات خرچ ہوگئے اور باقی جو ساڑھے تین لاکھ  روپےبچ گئے تھے اس  میں مجھ )عامر احمد( سے  UK سے  چار لاکھ روپے مزید منگوا کر  کرساڑھے سات لاکھ روپے کا ایک اور پلاٹ خرید لیا۔

2005 میں بندہ عامر احمد UK سے پاکستان آیا اور میں نے ایک گھر بیس لاکھ روپے کا والد صاحب کی مرضی (سے) خریدا، جس میں والد صاحب نے اپنا تین لاکھ روپے والا پلاٹ  سولہ لاکھ روپے میں بیچ کر مجھ کو پندہ لاکھ روپے دیے اور پانچ لاکھ روپے مزید میں نے ملائے اور وہ گھر اپنے والد صاحب کے نام خریدلیا۔  

2006 میں والد صاحب نے  بیس لاکھ والا گھر 34 لاکھ میں فروخت کردیا  جس میں سے دو لاکھ روپے والد صاحب سے خرچ ہوگئے تو اس  کے بعد والد صاحب نے ہم جس گھر میں ہیں میری مشاورت سے اس کے خریدنے کا ارادہ کیا جس کی قیمت اس وقت چالیس لاکھ پچاس ہزار روپے تھی، تو والد صاحب کے حکم پر میں نے UK سے مزید ساڑھے آٹھ لاکھ روپے بھیجے اور والد صاحب نے یہ گھر خرید لیا۔ اور میری عدم موجودگی کی وجہ سے والدہ صاحبہ نے یہ گھر  والد صاحب کی مرضی سے یہ کہہ کر اپنے نام کروایا کہ چونکہ یہ عامر کا ہے اور وہ اس وقت پاکستان میں موجود نہیں ہے لہذا اسے میں اپنے نام کرتی ہوں،اگر آپ یہ اپنے نام کریں گے تو پھر بعد میں دوسرے بھی دعوی کریں گے۔ پھر پرانا پلاٹ جو ساڑھے سات لاکھ میں خریدا تھا اسے بیس لاکھ میں فروخت کر کے ان پیسوں سے  اس گھر کی از سرنو تعمیر شروع کردی اور گھر کی تعمیر میں اس کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً تقریباً پندرہ لاکھ روپے میں نے بھیجے۔ اس تعمیر نو میں نیچے دکانیں بھی بنائی گئیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ یہ تعمیر 2008 میں مکمل ہوئی۔

2009 میں والدہ صاحبہ کے پرزور اصرار پر میں پاکستان آیا اور والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے حکم پر  ان کے ہمراہ ڈی سی آفس گیا اور یہ گھر والدہ صاحبہ نے بطور ہدیہ ، ہبہ اور گفٹ کے میرے نام منتقل کروایا، باقاعدہ گفٹ ڈیڈ بنی۔اس دوران ڈی سی نے والدہ اور والدہ سے پوچھا بھی کہ آپ کے مزید بچے ہیں تو یہ گھر ان کے نام کیوں کروا رہے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ باقی بھائی اپنا حصہ لے چکے ہیں اور یہ ان کا حصہ ہے۔ پھر جب وہ گفٹ ڈیڈ آئی تو والد صاحب نے مجھے دی۔ میں نے وصول کرکے بہن کو دیا کہ اسے لاکر میں رکھ دیں۔ اس کے بعد والد صاحب نے کبھی اس گھر کا حقیقی قبضہ دینے سے انکار نہیں کیا، بلکہ 20017 میں مجھے وہ سٹام پیپر بھی دئیے جس پر بھائی اور بھابھی سے سائن لیے تھے، جن کا ذکر پہلے آچکا ہے۔  تقریبا 20017 میں والد صاحب نے مجھے KDA  سے Mutation کا ڈاکومنٹ بنانے کا کہا، اس کے لیے بھی والد صاحب خود گئے تھے، وہ ڈاکومنٹ بنوایا جس میں میری تصویر اور گھر کا پتہ وغیرہ ہے، وہ بھی مجھے دیا جسے میں اپنے ساتھ UK لے کر چلا گیا۔  

2010 میں والدہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا اور 2011 میں میری شادی ہوگئی۔

2007 سے 2015 تک ہمارے اسی گھر کے نیچے واقع دو دکانیں مستقل ہمارے بھائی شاہد احمد کے استعمال میں رہیں بغیر کسی کرایہ کے۔  2015 میں یہ دکانیں چھوڑ کر دوسرے مقام پر اپنے لیے ایک دکان کرایے پر لے لی، لیکن 2016 میں جب ان کا کاروبار نہ چل سکا تو انہوں نے والد صاحب سے انہی دو دکانوں کے کرایہ  )اور ڈیڑھ لاکھ روپے دکانوں کا ڈیپازٹ (وصول کرنے کامطالبہ کیاتاکہ ان کا گزر بسر چل سکے ۔ ڈیپازٹ کی رقم انہوں نے اپنی نئی دکان میں جنگلے وغیر لگانے کے لیے لی تھی، لیکن جب کاروبار خراب ہوا تو گھر کے خرچے کے لیے ان دو دکانوں کے کرایہ کا مطالبہ کیا جو والد صاحب نے مجھ سے پوچھ کر میری رضامندی سے ان کو دینا شروع کیا، اور ابھی تک ان کو دیا جا رہا ہے۔

2018 میں والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اور اس کے ایک سال بعد بھائی نے مجھ سے ایک اور دکان کا مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ ایجنسی کا کام کرنا چاہتے ہیں، لہذا میں نے تیسری دکان بھی کرایہ دار سے خالی کروا کر انہیں دے دی جو تادم تحریر انہی کے پاس ہے۔  

2005 میں  بندہ عامر احمد نے پاکستان آکر ایک پلاٹ دو لاکھ روپے کا خریدا، پیسے میرے ہی تھے، لیکن اس کو والد صاحب کے نام کردیا تاکہ میری عدم موجودگی میں پلاٹ فروخت کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو؛ کیونکہ یہ پلاٹ بطور انوسٹمنٹ کے میں نے خریدا تھا۔اور اب تک  یہ پلاٹ  والد صاحب کے نام  ہی ہے، اس کی موجودہ قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے ہے۔ اس کے علاوہ کچھ شیئرز ہیں جن کی مالیت تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک ہے جو کہ والد صاحب کی ملکیت میں ہیں، اور یہ وہی شئیرز ہیں جن کا پیطھے ذکر آچکا ہے کہ والد صاحب نے ایک لاکھ کے خریدے تھے۔

  اب سوال یہ ہے کہ:

میری دو بہنیں ہیں ایک شادی شدہ اور ایک غیر شادی شدہ ہے جن کو ہماری والدین نے جائیداد میں سے کوئی حصہ نہیں دیا۔ بڑی بہن کی شادی کے وقت والد صاحب نے ایک پلاٹ بیچ کر ان کی شادی کرائی اور کہا کہ یہ آپ کا حصہ ہوگیا۔ لیکن میں اس کو ٹھیک نہیں سمجھتا۔ میں چاہتا ہوں کہ شریعت کے مطابق جس کا جو حصہ ہو وہ اس کو دیا جائے؛ تاکہ میرے والدین کو بھی قبر میں سکون ملے۔  

سوال نمبر:1 اب اس وقت ہماری ان دو بہنوں کا ، میرے بڑے بھائی کا اور میرا  اس   پلاٹ میں   جو والد صاحب کے نام ہیں اور والد صاحب کے شیئرز میں کیا کیا حصہ بنتا ہے؟

سوال نمبر:2     ہمارا موجودہ گھر جو کہ میرے نام ہے )جبکہ میری والدہ صاحبہ کہتی تھی کہ دونوں بیٹوں کا حصہ ہم ادا کرچکے ہیں اور یہ گھر عامر کا ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے مجھے زبردستی بلا کر والد صاحب کی رضامندی سے یہ گھر میرے نام کردیا تھا۔( اس موجودہ گھر  میں اگر کسی کا کوئی حصہ ہے تو  کتنا ، کتنا  حصہ ہے ؟  اور کن کن کاحصہ ہے؟

سوال نمبر:3   ہمارے بھائی کہتے ہیں کہ جوائنٹ فیملی کے وقت چونکہ میری کمائی سب سے زیادہ تھی تومیراث میں اس حساب سے سب سے زیادہ حصہ میرا ہونا چاہیے تو کیا واقعی اس حساب ہمارے بھائی کا حصہ سب سے زیادہ بنتا ہے یا نہیں؟

ہماری شادی شدہ بہن ہمارے اسی گھر کے اوپر والے پورشن میں کرایہ پر رہتی تھیں، لیکن والد صاحب کی وفات کے بعد سے انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہیں لہذا ہم کرایہ ادا نہیں کرسکتے تو اس کے بعد سے میں ان سے کرایہ وصول نہیں کررہا ہوں اور چھوٹی بہن میر ے گھر میں ہی رہتی ہیں، ان کا تمام خرچہ میرے ذمہ ہے۔

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے والدین، دادا، دادی اور نانی ان کی زندگی میں ہی فوت ہوچکے تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سے قبل چند باتیں بطورِ تمہید ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے:

(الف)۔۔۔ مورِث اگر اپنی زندگی میں کسی وارث کو اس بنیاد پر کچھ دے کہ آئندہ اسے میری میراث میں حصہ نہیں ملے گا تو شرعا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ جب اس کا انتقال ہوگا تو دیگر ورثا کی طرح اس وارث کو بھی ترکہ میں اپنا شرعی حصہ ملے گا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے بھائی شاہد والد صاحب کے ساتھ مذکورہ سٹام پیپر پر سائن کرنے کی وجہ سے اپنے حصۂ میراث سے محروم نہیں ہوں گے۔

(ب)۔۔۔ والد اگر اپنی جائیداد زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو یہ شرعًا ہبہ (گفٹ) ہوتا ہے، میراث نہیں۔ اس میں اصل اور بہتر تو یہ ہے کہ تمام اولاد، لڑکوں اور لڑکیوں سب کو برابر برابر حصہ دے، البتہ اگر میراث کے مطابق یعنی لڑکے کو لڑکی کا دگنا حصہ دے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ لیکن لڑکیوں کو بالکل محروم کرنا یا بہت معمولی حصہ دینا ناجائز ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوں گے۔ البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کی خدمت، دینداری یا غربت کی وجہ سے کچھ زیادہ حصہ دیدیں تو اس کی گنجائش ہے۔ نیز اگر والد بغیرکسی وجہ کےکسی کو زیادہ حصہ دے اور باقاعدہ قبضہ بھی دے تو یہ ہبہ مکمل ہوجائے گا، اور وہ موہوب لہ اس حصے کا مالک بن جائےگا،اگرچہ ایسا کرنا جائز نہیں۔

(ج)۔۔۔ شرعا ہبہ اس وقت مکمل ہوتا ہے جب ہبہ کرنے والا شخص جس کو ہبہ کر رہا ہے، اسے ہبہ کی ہوئی چیز کا قبضہ دیدے، اگر زبانی یا تحریری ہبہ کیا لیکن قبضہ نہیں دیا تو وہ چیز بدستور واہب کی ملکیت میں رہے گی، موہوب لہ یعنی جسے ہبہ کیا جا رہا ہو، اس کی ملکیت میں نہیں جائے گی۔ لہٰذا آپ کے والد صاحب نے ایک بیٹے اور ایک بہو کو حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ رقم میں آپ سے صرف زبانی جو یہ کہا تھا کہ اتنے پیسے آپ کے ہوگئے اس سے آپ ان پیسوں کے مالک نہیں بنے تھے، کیونکہ والد صاحب نے آپ کو اتنے پیسوں کا قبضہ نہیں دیا تھا۔ اس کے بعد ان پیسوں سے جو کچھ خریدا گیا وہ شرعا والد صاحب ہی کی ملکیت سمجھی جائے گی، آپ کی نہیں۔ اسی طرح موجودہ گھر خریدنے کے بعد والد صاحب نے اسے ایک مصلحت کی خاطر اپنی اہلیہ کے نام کیا تھا، اس لیے صرف نام کروانے کی وجہ سے  آپ کی والدہ شرعا اس گھر کی مالکہ نہیں بنی تھی۔    

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات حسبِ ذیل ہیں:-

(1)۔۔۔ سوال کے مطابق یہ پلاٹ چونکہ آپ نے اپنے پیسوں سے خریدا تھا، لیکن پاکستان میں نہ رہنے کی وجہ سے آپ نے اس غرض سے والد کے نام کیا تھا تاکہ بیچتے وقت کوئی مشکل نہ ہو؛ اس لیے یہ پلاٹ آپ کا ہے۔ صرف نام کرنے سے والد صاحب اس کے مالک نہیں بنے تھے، لہٰذا یہ ان کی میراث میں تقسیم نہیں ہوگا۔ البتہ شئیرز چونکہ والد صاحب نے اپنے پیسوں سے خریدے تھے؛ اس لیے وہ ان کی میراث ہے جس کے چھ (6) حصے بنا کر آپ دونوں بھائیوں میں سے ہر بھائی کو دو، دو (2، 2) حصے ملیں گے، اور دو بہنوں میں سے ہر ایک بہن ایک، ایک (1، 1) حصہ ملے گا۔

(2)۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اس گھر (بشمول ان دکانوں) کی خریداری اور تعمیرِ نو میں کچھ پیسے آپ کے لگے ہیں اور کچھ پیسے آپ کے والد صاحب کے۔  جتنے پیسے آپ کے لگے تھے، اس کے بقدر آپ اس گھر کے مالک تھے، اور جتنے پیسے والد صاحب کے لگے تھے، اس کے بقدر وہ اس گھر کے مالک تھے۔ پھر جب والد صاحب نے ڈی سی آفس جا کر آپ کی موجودگی میں وہ گھر آپ کے نام کرایا، اور (1) باقاعدہ گفٹ ڈیڈ بنوائی اور یہ گھر آپ کو دینے کی صراحت کی، (2) کاغذات آنے کے بعد وہ کاغذات بھی آپ کو دئیے، اس کے بعد گھر کے مزید کاغذات بھی آپ کے نام پر بنائے گئے، اور (3) انہوں نے آپ کو حقیقی قبضہ دینے سے کبھی انکار نہیں کیا، بلکہ آپ اس گھر میں ان کے ساتھ ملکیت کے اعتبار سے شریک تھے اور اکٹھے رہ رہے تھے، اور والد صاحب اس کے بعد سے گھر کے نیچے بنی ہوئی دکانوں میں تصرف آپ سے پوچھ کر کرتے رہیں،  تو ان تین امور کے جمع ہونے کی وجہ سے اس گھر میں والد صاحب کا جو حصہ بنتا تھا اس پر آپ کا قبضہ ہوگیا تھا، اور ہبہ مکمل ہونے کی وجہ سے آپ اس گھر میں موجود اپنے والد صاحب کے حصے کے بھی مالک بن گئے تھے۔ لہٰذا اب یہ پورا گھر آپ کا ہے، یہ والد صاحب کی میراث میں شامل نہیں، اور آپ کے دوسرے بہن بھائی اس میں حق کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔   (باستفادۃِ  من التبویب:60/72454، ومن مجموعۃ فتاویٰ جامعۃ دار العلوم کراتشی: 2060/89)

       تاہم چونکہ آپ کے والد صاحب نے آپ کی دونوں بہنوں کو بالکل حصہ نہیں دیا جوکہ ناجائز تھا۔ اس لیے اب آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی دونوں بہنوں کو کم از کم ان کے حصۂ میراث کے بقدر مال دیدیں؛ تاکہ آپ کے والدین سے ہونے والے ناجائز تقسیم کی تلافی ہو۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اس موجودہ گھر کی خریداری اور تعمیر میں (آپ کے پیسوں اور پلاٹوں میں حصے کے علاوہ) صرف آپ کے والد صاحب کے کم و بیش تقریبا ساڑھے تیتنس لاکھ (3350000) روپے خرچ ہوئے ہیں جوکہ والد صاحب نے آپ کو گھر کی صورت میں ہبہ کردئیے ہیں۔ اس رقم کو اگر میراث کے فارمولے پر والد صاحب کے ورثا میں تقسیم کریں تو آپ کی ہر بہن کو ساڑھے پانچ لاکھ سے چھ لاکھ کے درمیان رقم ملنی چاہیے تھی۔ اسی طرح والد صاحب نے آپ کے بھائی کو اگرچہ پہلے والے گھر میں سے حصہ دیا تھا، لیکن اس کے بعد کی تمام جائیداد میں سے کچھ نہیں دیا، یہ بھی درست نہیں تھا۔  اس لیے آپ کو چاہیے کہ اپنے بھائی کو بھی کچھ نہ کچھ دیدیں۔  

     اگر آپ ایسا کریں گے تو  اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس سے آپ کے والدین کی کوتاہی کی تلافی ہوجائے گی، جبکہ آپ کو والدین کی طرف سے یہ ذمہ داری پوری کرنے اور بہن بھائیوں کے ساتھ حسنِ سلوک پر اجرِ عظیم ملے گا، ان شاء اللہ۔

(3)۔۔۔ آپ کے بھائی نے والد صاحب کے ساتھ دکان پر جو کام کیا تھا، وہ اس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ اجرتِ مثل (اس زمانے میں اس جیسے شخص کو اتنی مدت اس کام کی جو اجرت ملتی تھی) کا مستحق تھا۔ لیکن چونکہ اس وقت ان کے اخراجات بھی اسی دکان سے ہو رہے تھے، پھر کاروبار ختم ہونے کے بعد والد صاحب نے اس کاروبار سے خریدے گئے مکان میں بھی اسے حصہ دیا اور کام زیادہ کرنے کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ حصہ دیا اور وہ اس پر راضی بھی ہوا، اس لیے ان کی اس باہمی رضامندی سے اجرتِ مثل کے معاملے کا تصفیہ ہوگیا تھا، بالخصوص جبکہ 2007 سے اب تک اس مکان کے نیچے واقع دو تین دکانیں بھی ان کے استعمال میں رہی ہیں اور وہی ان کا کرایہ اور نفع حاصل کرتا رہا ہے؛ اس لیے اب وہ اس کام کی وجہ سے مزید استحقاق کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔  تاہم آپ صلہ رحمی اور والد صاحب سے رہ جانے والی کمی کی تلافی کے طور پر انہیں کچھ دے تو بہتر ہے، جیساکہ جواب (2) میں بھی بتایا گیا۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ }[النساء: 11].
مشكاة المصابيح (2 / 183):
وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني نحلت ابني هذا غلاما فقال : " أكل ولدك نحلت مثله ؟ " قال  لا قال : "فأرجعه". وفي رواية : أنه قال : " أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء ؟ " قال : بلى قال : " فلا إذن " . وفي رواية : أنه قال : أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال : " أعطيت سائر ولدك مثل هذا ؟ " قال : لا قال : " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم " . قال : فرجع فرد عطيته . وفي رواية : أنه قال : " لا أشهد على جور ".
حاشية ابن عابدين (4/ 444):
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: "اتقوا الله واعدلوا في أولادكم"، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية، فيسوي بين الذكر والأنثى؛ لأنهم فسروا العدل في
الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة.
وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض، روى عن
أبي حنيفة: لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين، وإن كانوا سواء يكره. وروى المعلى عن أبي يوسف: أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار، وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى. وقال محمد: يعطى للذكر ضعف الأنثى.
وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف: وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد
أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم، وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.
بدائع الصنائع (5/ 244):
              وأما تفسير التسليم والقبض فالتسليم والقبض عندنا هو التخلية والتخلي وهو أن يخلي البايع
                    بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل
البايع مسلما للمبيع والمشتري قابضا له…. لنا أن التسليم في اللغة عبارة عن جعله سالما خالصا يقال سلم فلان لفلان أي خلص له، وقال الله تعالى { ورجلا سلما لرجل } أي سالما خالصا لا يشركه فيه أحد، فتسليم المبيع إلى المشتري هو جعل المبيع سالما للمشتري أي خالصا بحيث لا ينازعه فيه غيره وهذا يحصل بالتخلية فكانت التخلية تسليما من البائع والتخلي قبضا من المشتري.
                        المجلة (ص: 54):
 مادة 263: تسليم المبيع يحصل بالتخلية وهو أن يأذن البائع للمشتری بقبض المبیع مع عدم وجود مانع من تسلیم المشتری إیاه.
مادة 265: تختلف كيفية التسليم باختلاف المبيع.
مادة 270: العقار  الذي له باب وقفل كالدار والكرم إذا وجد المشتري  داخله وقال له البائع  "سلمته إليك" كان قوله ذلك تسليما، وإذا كان المشتري خارج ذلك العقار فإن كان قريبا منه بحيث يقدر على إغلاق بابه وقفله في الحال يكون قول البائع للمشتري "سلمتك إياه" تسلیما أیضا، وإن لم يكن منه قريبا بهذه المرتبة فإذا مضى وقت يمكن فيه ذهاب المشتري إلى
ذلك العقار و دخوله فیه یکون تسلیما.
مادة 271: إعطاء مفتاح العقار الذي له قفل للمشتري يكون تسليما.
شرح المجلة للعلامة خالد الأتاسی (2/192):
المادة 263: تسلیم المبیع یحصل بالتخلیة: …… و هو أن یأذن البایع للمشتری بقبض المبیع مع عدم وجود مانع من تسلیم المشتری إیاه، یعنی أن التخلیة بین المشتری و المبیع تقوم مقام القبض الحقیقی إذا کانت علی وجه یتمکن فیها المشتری من القبض بعد أن یکون أذن له البایع بقبضه........الخ
المادة 265: تختلف كيفية التسليم باختلاف المبيع.  قال فی رد المحتار: و الحاصل أن التخلیة قبض حکما لو مع القدرة علیه بلا کلفة، لکن ذلك یختلف بحسب حال المبیع، ففی نحو حنطة فی بیت مثلا دفع المفتاح إذا أمکنه الفتح بلا کلفة قبض، و فی نحو دار فالقدرة علی إغلاقها قبض، أی بأن تکون فی البلد فیما یظهر.
المادة 270: العقار  الذي له باب وقفل كالدار والكرم إذا وجد المشتري  داخله، أی لا علی
وجه السکنی فی الدار، و إلا کان قابضا بنفس العقد و لا یحتاج فی ذلك إلی تخلیة البائع بقوله "سلمته إلیك" و نحوه…… الخ
تنقيح الفتاوى الحامدية (4/ 420):
( سئل ) في رجل ساكن في بيت أبيه في جملة عياله وصنعتهما متحدة يعينه بتعاطي أموره ولا يعرف للابن مال سابق فاجتمع مال بكسبه ويريد أن يختص به بدون وجه شرعي فهل جميع ما حصله بكسبه ملك لأبيه ولا شيء له فيه ؟
( الجواب ) : نعم، جميع ما حصله بكسبه ملك لأبيه لا شيء له فيه حيث كان من جملة عياله والمعين له في أموره وأحواله وصنعتهما متحدة ولا يعرف للابن مال سابق ؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يصنع كما صرح بذلك في الخلاصة والبزازية ومجمع الفتاوى.
الدر المختار (6/ 42):
 وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له.  وفي الدرر: دفع غلامه أو ابنه لحائك مدة كذا ليعلمه النسج وشرط عليه كل شهر كذا جاز، ولو لم يشترط فبعد التعليم طلب كل من المعلم والمولى أجرا من الآخر اعتبر عرف البلدة في ذلك العمل.
رد المحتار علی الدر المختار (6/ 42):
قوله ( فالعبرة لعادتهم ) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل وإلا فلا. قوله ( اعتبر عرف البلدة الخ ) فإن كان العرف يشهد للأستاذ يحكم بأجر مثل تعليم ذلك العمل، وإن شهد للمولى فأجر مثل الغلام على الأستاذ ، درر.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

14/محرم الحرام /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب