021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عمل تسخیر کی شرعی حیثیت
73905ذکر،دعاء اور تعویذات کے مسائلرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے مسائل ) درود سلام کے (

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض علماء اس حدیث کی روشنی میں عملیات کے زور پر کسی کو اپنے تابع کرنے ، چاہے خاوند بیوی کریں، یا کسی سے محبت کی وجہ سے عملیات کے زور پر اس کے دماغ کو اپنی طرف مائل کرنے یا اپنی مرضی کے مطابق چلانے، یا کسی کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کو ناجائز کہتے ہیں۔ حدیث یہ ہے:
16507-أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ، بِبَغْدَادَ , أَنْبَأَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَ مَعْمَرٌ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: دَخَلَتْ امْرَأَةٌ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَقَالَتْ: هَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أَقِيدَ جَمَلِي؟قَالَتْ: قِيدِي جَمَلَكِ، قَالَتْ: فَأَحْبِسُ عَلَى زَوْجِي؟ فَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: أَخْرِجُوا عَنِّي السَّاحِرَةَ فَأَخْرَجُوهَا(السنن الكبرى   البيهقي (المتوفى: 458ھـ(

مفہوم: ایک عورت نے کہا میرا خاوند دوسری شادی کرنا چاہتا تھا تو میں نے ایک عمل کے زریعے اس کو دوسری شادی سے روک دیا۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس عورت کو نکال دو یہ ساحرہ ہے۔یعنی عملیات کے ذریعے اس قسم کے کام کرنا جائز نہیں ہیں۔

جبکہ بعض لوگ نہ صرف یہ کام کرتے ہیں، بلکہ لوگوں کو بھی کسی کو تابع کرنے، محبوب کو اپنی محبت میں گرفتار کرنےسمیت، کسی کے درمیان دشمنی پیدا کرنے اور دشمن کو نقصان پہنچانے کے جنتر(نقش، نمبروں والے تعویذ)منتر(پڑھنے والی چیزیں) تنتر(کرنے والے عمل) وغیرہ بتاتے ہیں اور درست سمجھتے ہیں۔

قطع نظر اس کے کہ لوگ دشمن کسے سمجھتے ہیں، ظاہر ہے دشمن سے مراد  اسرائیل، امریکا، انڈیا، پاکستان نہیں ہوتا، بلکہ دشمن سے مراد کسی کا چچا ہے جس نے پلاٹ قبضہ کرلیا ہے، کسی کا دشمن اس کی ساس ہے جو اسے گھر میں پر بھی  نہیں مارنے دیتی، کسی کا دشمن اس کا پڑوسی ہے جو اسے تنگ کرتا ہے وغیرہ۔

محبت اور دشمنی کے لوگوں کے یہ مسائل جدید مسائل نہیں ہیں ،بلکہ یہ قدیم مسائل حضرت آدم علیہ السلام  کے وقت سے ہی دنیا میں موجود ہیں۔ انبیائے کرام، صحابہ کرام خود کیا کرتے تھے اور امت کو کیا تعلیم دی؟

کیا قرآن وسنت کی روشنی میں جنتر، منتر، تنتر یعنی تعویذات، نقش، یا کسی پڑھنےوالی چیز، کسی عمل کے ذریعے ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

(نوٹ) مفتیان کرام کا کام سوال کے اندر جھانک کر اس کی گہرائی کو سمجھ کر ایسا جواب دینا ہوتا ہےجو آنے والے کئی سالوں تک لوگوں کی رہنمائی کرتا رہے۔ اس لیے برائے مہربانی تعویذ کے جواز کی تین شرائط والے فتوے کو جواب میں کاپی پیسٹ کرنے پر اکتفاء نہ کریں، بلکہ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے جامع اور رہنمائی پر مبنی جواب عنایت فرمائیں۔ اس نوٹ  کو پڑھنے کے بعد سوال سے الگ کردیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اول تو مستفتی کے طرز تحریر  وسؤال پر حیرت بھی ہے اور افسوس بھی کہ وہ مسئلہ پوچھنے کے ساتھ ساتھ  مفتیان کرام کو فتوی  نویسی کااندازاور تحقیق  کے اصول بھی سکھا رہا ہے، معلوم نہیں کہ اس طرزسؤال سے وہ کیا ظاہر کرناچاہتا ہے ؟

اصل سؤال کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی آزادانسان یا جن کو نقوش،تعویذات یا علمیات کے ذریعہ مسخر کرنے کا شرعا کوئی جواز نہیں،اگرچہ عمل بظاہر نیک اور اچھا ہی کیوں نہ ہو۔(امد الفتاوی:ج۴،ص۸۹و امداد الاحکام :ج۱،ص۳۳۲)

جو تعویذاور دم شرکیہ یا مجہول کلمات پر مشتمل ہوں وہ بالاتفاق ناجائز ہیں ،اور جو دم ایسےنہ ہوں، بلکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہوں ان کے جواز میں بھی اختلاف نہیں،البتہ جودم اور تعویذ قرآنی کلمات یا اسماء الیہ پر مشتمل ہوں، لیکن  نص سے ثابت نہ ہوں تو ان کے بار ے میں اختلاف ہے، جمہور کے نزدیک جائز ہیں، جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک یہ بھی جائز نہیں، لیکن علی الاطلاق شرک یا ممنوع وہ بھی نہیں کہتے،لہذا جمہور اہل علم کے نزدیک صرف وہ تعویذ کفر یا شرک /ممنوع ہے، جس میں غیر اللہ سے استمداد کے کلمات ہوں یا تعویذ کو مؤثر بالذات سمجھا جائے۔(احسن الفتاوی:ج۸،ص ۲۵۵)

اسی طرح جوتعویذودم فی نفسہ جائز ہیں اگروہ کسی غلط اعتقاد سےیا کسی ناجائز مقصد وغرض کے لیے کیےجائیں،تو وہ بھی ناجائز ہوجاتے ہیں،(امداد الاحکام:ج۱،ص۳۳۰)لیکن ناجائز تعویذات یا علمیات کی وجہ سے یا ان کی آڑ میں جائز عملیات اور تعویذات کا انکار بھی درست نہیں،لہذا دفع ظلم یا ضرر کے لیے یا دفع مرض یا کسی بھی جائز حاجت کے برآری کے لیےجائزعملیات وتعویذات جائز ہیں،چنانچہ خودحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےسندھ کےایک عامل سے اپنے بیماری کی بطورجادو تشخیص اور اس کا علاج کرنا ثابت ہے۔(شرح السنۃ للبغوی)

خلاصہ یہ کہ جائزمقاصد کے لیےشرعا تعویذیاعمل کی تین بلکہ چار شرطوں سے اجازت ہے۔

۱۔لغت مفہومہ ہو۔(یعنی مجہول ونامعلوم معنی  ومفہوم والے کلمات نہ ہوں اورشرک کے مفہوم سےخالی ہوں۔ )

۲۔الفاظ ماثور ومنقول ہوں۔( یعنی بعینہ تمام الفاظ وکلمات یاکم از کم ان کا معنی ومفہوم ثابت/درست ہو۔)

۳۔اس کے مؤثر بالذات ہونے کا عقیدہ نہ رکھاجائے۔(ازاحسن الفتاوی:ج۸،ص۲۵۵)

۴۔تعویذ لکھنے یاعمل کے دوران کوئی ایسی پابندی یا کام نہ کیا جائے،جو شریعت کے خلاف ہو۔مثلا چاند کی خاص تاریخوں کو تعویذ لکھنے یاعمل میں مؤثرسمجھنا۔(فتاوی محمودیہ:ج۲۴،ص۴۴۵)

یہ بحث نفس جواز سے متعلق تھی،ورنہ بہتر اور اولی بلکہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ عملیات وتعویذات کے بجائے ماثور ومنقول ادعیہ ورقی (دموں) کو ترجیح دی جائے،لہذا افضل یہ ہے کہ اللہ تعالی پر مکمل بھروسہ کیا جائےاورمسنون اذکاروادعیہ کے علاوہ دیگر عام جائز تعویذات ودموں سے بھی اجتناب کیا جائے۔(امداد الفتاوی:ج۴،ص۸۸وامداد الاحکام:ج۱،ص۳۳۰) جیساکہ یہ طریقہ انبیاء علیہم السلام کا بھی رہا ہے،چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام کا اپنی قوم کی مخالفت وایذاء رسانی اوران کے اپنے معبودان باطلہ کی پیغمبر پراثر اندازی کی پیغمبر کی طرف سے پرزور تردیدکو اللہ تعالی نےاپنے کلام مجیدمیں یوں بیان فرمایا ہے کہ:

{إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (54) مِنْ دُونِهِ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُونِ (55) إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُمْ مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ } [هود: 54 - 56]

اور حقیقت یہ ہے کہ ادعیہ مسنونہ واذکارمسنونہ بلکہ پورےقرآن وسنت کا حقیقی مقصد بھی  انسانوں میں اسی عقیدہ توحید اور توکل علی اللہ کے اعلی مقام اور اس کے استحضار کو پیدا کرنا ہی ہے،معنی سمجھےبغیرصرف الفاظ کارٹنارٹانااور پڑھنامقصودنہیں،اگرچہ تاثیر اور برکت سے وہ بھی خالی نہیں۔

حوالہ جات
شرح السنة للبغوي (12/ 188)
 أخبرنا أبو الحسن الشيرزي، أنا زاهر بن أحمد، أنا أبو إسحاق الهاشمي، أنا أبو مصعب، عن مالك، عن أبي الرجال محمد بن عبد الرحمن، عن أمه عمرة بنت عبد الرحمن،عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، " أنها أعتقت جارية لها عن دبر منها، ثم إن عائشة مرضت، فدخل عليها سندي، فقال: إنك مطبوبة، فقالت: من طبني؟ قال: امرأة من نعتها كذا وكذا، وقد بال في حجرها صبي، فقالت عائشة: ادعوا لي فلانة لجارية لها تخدمها، فوجدوها في بيت جيران لها، في حجرها صبي قد بال، فقالت: حتى أغسل بول هذا الصبي، فغسلته: ثم جاءت، فقالت لها عائشة: أسحرتيني؟ فقالت: نعم، فقالت: لم؟ قالت: أحببت العتق، قالت عائشة: والله لا تعتقي أبدا، فأمرت ابن أخيها أن يبيعها من الأعراب ممن يسيء ملكتها، ثم ابتع بثمنها رقبة حتى أعتقها، ففعلت ".
قالت عمرة: فلبثت عائشة ما شاء الله من الزمان، ثم إنها رأت في النوم أن اغتسلي من ثلاث أبؤر يمد بعضها بعضا، فإنك تشفين، فاغتسلت، فشفيت.
وروي أن امرأة دخلت على عائشة، فقالت: هل علي حرج أن أقيد جملي؟ قالت: قيدي جملك، قالت: فأحبس علي زوجي؟ فقالت عائشة: أخرجوا عني الساحرة، فأخرجوها.
وروي أنها قالت لعائشة: أؤخذ جملي، ومعناه هذا، يقال: أخذت المرأة زوجها تأخيذا، إذا حبسته عن سائر النساء.
وقال سعيد بن المسيب في الرجل يؤخذ عن امرأته؟ قال: «اتئدوا لم تنهوا عما ينفعكم، إنما نهيتم عما حرم عليكم».
قال قتادة: قلت لسعيد بن المسيب: رجل به طب أيحل عنه؟ قال: «من استطاع أن ينفع أخاه فليفعل».
وعن عطاء، قال: لا بأس أن يأتي المؤخذ عن امرأته، والمسحور من يطلق عنه
صحيح مسلم (4/ 1727)
 عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية فقلنا يا رسول الله كيف ترى في ذلك فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»
سنن الترمذي ت بشار (3/ 466)
عن أبي سعيد الخدري قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فنزلنا بقوم، فسألناهم القرى فلم يقرونا، فلدغ سيدهم فأتونا فقالوا: هل فيكم من يرقي من العقرب؟ قلت: نعم أنا، ولكن لا أرقيه حتى تعطونا غنما، قالوا: فإنا نعطيكم ثلاثين شاة، فقبلنا فقرأت عليه: الحمد لله سبع مرات، فبرأ وقبضنا الغنم، قال: فعرض في أنفسنا منها شيء فقلنا: لا تعجلوا حتى تأتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فلما قدمنا عليه ذكرت له الذي صنعت، قال: وما علمت أنها رقية؟ اقبضوا الغنم واضربوا لي معكم بسهم.
هذا حديث حسن صحيح
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 363)
في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية
 (قوله التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم وليس كذلك إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اھ

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۵محرم ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب