73922 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
سوال:عرض یہ ہےکہ ہم4بھائی اور3بہنیں ہیں اورجائیدادمیں دوپلاٹ ہیں،جن میں سےایک پلاٹ بڑےماموں نےخریدکرنانی کےنام کیا،جب نانی کاانتقال ہواتوان کی بیٹی حیات تھیں،تواس پلاٹ سےان کی اولادکوحصہ ملےگایانہیں؟
تنقیح:پہلےنانی کاانتقال ہوا2007 میں،اس کےبعد بیٹی کاانتقال ہوا،نانی کےانتقال کےوقت ان کی بیٹی زندہ تھی۔
بڑےماموں نےپلاٹ صرف نانی کےنام کیاتھا،باقاعدہ قبضہ نہیں دیا،نانی کی زندگی میں رہائش مشترکہ تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بڑےماموں نےپلاٹ خریدکرنانی کےنام کیاشرعایہ ہبہ ہے،اورہبہ کےلیےضروری ہےکہ نام کرنےکےساتھ ساتھ باقاعدہ قبضہ بھی دیاجائے،صورت مسئولہ میں چونکہ ماموں کی طرف سےباقاعدہ قبضہ نہیں دیاگیا،اس لیےیہ پلاٹ صرف ماموں کاہوگا،نانی کی میراث میں شامل نہ ہوگا۔
ہاں نانی کی دیگرجائیداداورمیراث میں نانی کےوفات کےوقت موجودورثہ کاحصہ ہوگا۔
میت کےبیٹےاوربیٹی زندہ ہوں توآگےان کی اولادکادادایاناناکی میراث میں براہ راست توکوئی حصہ نہیں ہوتا،البتہ بیٹی کاوالدکی جائیدادودیگرمیراث میں جوحصہ بنےگاوہ اب ان کی اولاد یعنی نواسےنواسیوں کوملےگا،اس طرح بالواسطہ نواسےنواسیوں کاناناکی جائیدادمیں حصہ بن جائےگا۔
حوالہ جات
"شرح المجلۃ" 1 / 473 :ویملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض فالقبض شرط لثبوت الملک ۔
"الفتاوى الهندية" 51 / 332:
( الباب الرابع في الحجب ) وهو نوعان : حجب نقصان وحجب حرمان ۔
فحجب النقصان هو الحجب من سهم إلى سهم ، وأما حجب الحرمان فنقول : ستة لا يحجبون أصلا،الأب والابن والزوج والأم والبنت والزوجة ومن عدا هؤلاء فالأقرب يحجب الأبعد كالابن يحجب أولاد الابن والأخ لأبوين يحجب الإخوة لأب ومن يدلي بشخص لا يرث معه إلا أولاد الأم ۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
15/محرم الحرام 1443 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |