73933 | طلاق کے احکام | کسی کو طلاق واقع کرنے کا حق دینے کا بیان |
سوال
مفتیان کرام سے درج ذیل مسئلہ کے بارے میں جواب مطلوب ہے:
میں قاری عبداللہ بن حافظ احسن نے اپنی بیوی ربیعہ بی بی بنت مفتی غلام اللہ کاحق طلاق بصورت تفویض کے اپنے چچا مفتی غلام اللہ کے حوالہ کیا،یہ کام میرے والد کےمزاج وحالات کے پیش نظرکیاگیا کہ اگروہ مجھے طلاق دینے پرمجبورکریں اورمیں طلاق دیدوں تومیرے پاس اختیارنہ ہونے کی وجہ سے اس طلاق کااعتبارنہ ہو،اوراسی طرح اگرکسی وجہ سے میں اپنی بیوی کوطلاق دیدوں تواس کااعتبارنہ ہو۔پوچھنایہ ہے کہ اس طرح تفویض کرنے سے میراختیارکلی طورپران کومنتقل ہوگیاہے اورمیری طلاق کااعتبارہوگایانہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
”طلاق“ دینے کااختیار اسلام نےشوہرکودیا ہے، یہ حق شوہر کا کبھی ختم نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اگر شوہر اپنی بیوی یا کسی اور فرد کو طلاق واقع کرنے کا اختیار سپرد کردے پھر بھی شوہر کا اپنا یہ حق برقرار رہے گا یعنی اگر تفویض کے بعد شوہر از خود طلاق دیدے تو اس کی طلاق واقع ہوجائے گی، حاصل یہ ہے کہ شوہر کے لیے حق طلاق سے کلی طور پر دستبردار ہونے کی کوئی شکل شرعاً متصور نہیں ہے۔لہذاصورت مسؤلہ میں اگرآپ نے کسی بھی وجہ سے طلاق دی تووہ طلاق معتبرہوگی۔
حوالہ جات
فی سنن ابن ماجه (ج 1 / ص 672):
عن عكر مة عن ابن عباس قال أتى النبي صلى الله عليه و سلم رجل فقال يا رسول الله إن سيدي زوجني أمته وهو يريد أن يفرق بيني وبينها قال فصعد رسول الله صلى الله عليه و سلم المنبر فقال ( يا أيها الناس ما بال أحدكم يزوج عبده أمته ثم يريد أن يفرق بينهما ؟ إنما الطلاق لمن أخذ بالساق )
في الزوائد في إسناده ابن لهيعة وهو ضعيف
( إنما الطلاق لمن أخذ بالساق ) أي الطلاق حق الزوج الذي له أن يأخذ بساق المرأة لا حق المولى ]
محمد اویس بن عبدالکریم
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
16/01/1443
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |