021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کاحق سپرد کرنے کے بعد شوہرکی طلاق واقع ہوگی یانہیں؟
73933طلاق کے احکامکسی کو طلاق واقع کرنے کا حق دینے کا بیان

سوال

مفتیان کرام سے درج ذیل مسئلہ کے بارے میں جواب مطلوب ہے:

میں قاری عبداللہ بن حافظ احسن نے اپنی بیوی ربیعہ بی بی بنت  مفتی غلام اللہ کاحق طلاق بصورت تفویض کے اپنے چچا مفتی غلام اللہ کے حوالہ کیا،یہ کام میرے والد کےمزاج وحالات کے پیش نظرکیاگیا کہ اگروہ مجھے طلاق دینے پرمجبورکریں اورمیں طلاق دیدوں تومیرے پاس اختیارنہ ہونے کی وجہ سے اس طلاق کااعتبارنہ ہو،اوراسی طرح اگرکسی وجہ سے میں اپنی بیوی کوطلاق دیدوں تواس کااعتبارنہ ہو۔پوچھنایہ ہے کہ اس طرح تفویض کرنے سے میراختیارکلی طورپران کومنتقل ہوگیاہے اورمیری طلاق کااعتبارہوگایانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

”طلاق“ دینے کااختیار اسلام نےشوہرکودیا ہے، یہ حق شوہر کا کبھی ختم نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اگر شوہر اپنی بیوی یا کسی اور فرد کو طلاق واقع کرنے کا اختیار سپرد کردے پھر بھی شوہر کا اپنا یہ حق برقرار رہے گا یعنی اگر تفویض کے بعد شوہر از خود طلاق دیدے تو اس کی طلاق واقع ہوجائے گی، حاصل یہ ہے کہ شوہر کے لیے حق طلاق سے کلی طور پر دستبردار ہونے کی کوئی شکل شرعاً متصور نہیں ہے۔لہذاصورت مسؤلہ میں اگرآپ نے کسی بھی وجہ سے طلاق دی تووہ طلاق معتبرہوگی۔

حوالہ جات
فی سنن ابن ماجه (ج 1 / ص 672):
عن عكر مة عن ابن عباس قال أتى النبي صلى الله عليه و سلم رجل فقال يا رسول الله إن سيدي زوجني أمته وهو يريد أن يفرق بيني وبينها قال فصعد رسول الله صلى الله عليه و سلم المنبر فقال ( يا أيها الناس ما بال أحدكم يزوج عبده أمته ثم يريد أن يفرق بينهما ؟ إنما الطلاق لمن أخذ بالساق )
 في الزوائد في إسناده ابن لهيعة وهو ضعيف
 ( إنما الطلاق لمن أخذ بالساق ) أي الطلاق حق الزوج الذي له أن يأخذ بساق المرأة لا حق المولى ]

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

16/01/1443

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب