021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکوة تقسیم کرنے والے ادارےکو زکوة دیتے ہی زکوة ادا ہوجائے گی یا جب وہ ادارہ فقیرکو زکوة دےگا تب دینے والے کی زکوة ادا ہوگی؟
73937زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ       

ایک ادارہ ہے جو لوگوں کی زکوة وصول کرتا ہے اور مستحق لوگوں کو دیتا ہے،یہ ادارہ چند مستحق لوگوں کو ہر ماہ ایک فکس رقم بطور زکوة کے دیتا ہے اور اس کے علاوہ مختلف اوقات کے دوران جس کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تحقیق کے بعدمستحق پا کر اس کی مدد کرتا ہے۔ اس ادرے سے متعلق مجھے کچھ سولات پوچھنا ہیں جو درجِ ذیل ہیں:

1۔ زکوة دہندہ  اگر اس ادارے کو وکیل بنادے تو کیا وکیل کو دیتے ہی اس پر سے زکوة کی فرضیت اٹھ جائے گی یاجب ادارہ فقیر کو دے گا تب زکوة کی فرضیت اٹھے گی ؟

2۔ زکوة دہندہ سے وصولی کے بعد اگریہ ادارہ زکوة کو تقسیم کرنے میں سال لگاتا ہو توکیا  اس تاخیرسے زکوة دہندہ گناہ گار ہوگا؟

3۔ مذکورہ  ادارے کا بینک میں زکوة اکاؤنٹ ہے اور لوگ اس میں زکوة  بھیجتےرہتے ہے،پھریہ ادرہ اس سے تھوڑا تھوڑا کرکے حسبِ ضرورت نکال کر غریبوں پر تقسیم کرتا رہتاہے، اب خدانخوستہ اگر زکوة دینے والوں سے کوئی تقسیمِ زکوة سے پہلے مرجائے تو ا س کی زکوة کا کیابنےگا ؟ اکاونٹ چیک کرنے سے یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں شخص نے اتنی رقم دی ہے، لیکن یہ پتہ کرنا کہ وہ شخص اب زندہ ہے یا نہیں؟  ناممکن ہے،اسی طرح موت کی صورت میں اس کے رشتے داروں کا پتہ کرنا بھی ناممکن ہوتاہے،جبکہ رقم میراث بن کر ورثہ کو منتقل ہوتی ہے۔

4۔زکوة  اکاؤنٹ میں مختلف لوگوں کی رقوم ہوتی ہیں اوروہ مکس ہوتی ہیں تو کیسے پتہ چلے گاکہ کس کی رقم خرچ ہوئی ہےکہ کہاجائے کہ اس کی زکوة ادا ہوگئی ہے؟یہ مشکل اس لیے پیش آتی ہے کہ جو لوگ زکوة بھیجتے ہے وہ ساری رقم اسی وقت مستحقین کو نہیں دی جاتی، بلکہ فقراء کی  ضرورت کے مطابق وفقتاً فوقتاً  دی جاتی ہے۔

۵۔کیا موجودہ حالات میں ضرورت کے قاعدے کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہےکہ جیسے ہی وہ شخص ادارے کو زکوة کی رقم منتقل کردے اسی سے اس پر سے فرضیت زکوة اٹھ جائےگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 (١)۔ اگرمذکورہ ادارے نے مستحقِ زکوٰۃ  لوگوں سےان کی زکوة وصول کرنے اورپھر غریبوں میں تقسیم کرنے کاوکالت نامہ حاصل کررکھاہوتو اس دارے کے زکوۃ وصول کرتے ہی دینے والے کی زکوة ادا ہوجائے گی اورفرضیت اس سے ساقط ہوجائے گی اوراگر اس طرح کی وکالت  اس نے مستحق ِزکوة لوگوں سے حاصل نہیں کیاتو پھرزکوة تب ادا ہوگی جب بالفعل یہ اداہ فقیروں پر زکوة خرچ کرے گی اوروہ اس پر قبضہ کرلیں گے ۔

 (۲)۔ مذکورہ بالادوصورتوں میں سے پہلی صورت میں گناہگارنہیں ہوگا اوردوسری صورت میں بعض علماء کے نزدیک گناہگارہوگا،بشرطیکہ اس کویہ علم ہوکہ مذکورہ ادارہ زکوة کی ادائیگی میں تاخیرکرتاہے اورپھربھی وہ شخص اسی کوزکوة دیدیتاہے ۔

۳۔ پہلی صورت میں چونکہ زکوة معطی کی ملکیت سے نکل گئی ہے، لہذا وہ میراث نہیں بنے گی،لہذا نہ زکوة دہندہ کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے اورنہ ہی موت کی صورت میں اس کے ورثہ کو،جبکہ دوسری صورت میں چونکہ زکوة ملک سے نہیں نکلی، لہذاموت کی صورت میں وہ میراث بنے گی اورواپس ورثہ کے پاس آئے گی، اگرورثہ نہ مل رہے ہوں تو اس کا حکم لقطہ والا ہوگا کہ جب تک امید ہے ورثہ کوتلاش کیا جائے گا اورناامیدی ہونے پر ان کی طرف سے فقراء پرصدقہ کردیا جائے گا،اس کے بعدبھی اگرورثہ کا پتہ چل جائے اوروہ مال کا مطالبہ کرے تو اس ادارے کو ومال ان کو دینا پڑےگا۔

۴۔ مستحقِین زکوٰۃ سےتملیک حاصل کرنے کی صورت میں تو یہ مشکل پیش نہیں آئے گی،کیونکہ ادارے کو دیتے ہی زکوة اد ہوجائے گی،ہاں تملیک کے عدمِ حصول کی صورت میں یہ مشکل ضرورپیش آئے گی،اس صورت میں  ادارہ  نےجس کی طرف سے نیت کی تھی اس کی طرف سے ادا ہوجائے گی اوراگرنیت نہیں کی تو سب کی طرف سے تناسب کے ساتھ ادا ہوجائے گی ۔

۵۔یہ بات تب کہی جاسکتی ہےجب مذکورہ ادارہ فقراء سےتوکیل حاصل کرلے۔

حوالہ جات
وفی سنن أبي داود - (ج 2 / ص 49، باب الفقیر یھدی للغنی)
حدثنا عمرو بن مرزوق ، قال : أخبرنا شعبة ، عن قتادة، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم أتى بلحم ، قال : " ما هذا " ؟ قالوا : شئ تصدق به على بريرة، فقال : " هولها صدقة، ولنا هدية"
وفی درر الحكام شرح غرر الأحكام - (ج 5 / ص136، باب موت المکاتب وعجزہ)
وَمِنْ الْأُصُولِ الْمُقَرَّرَةِ أَنَّ تَبَدُّلَ الْمِلْكِ قَائِمٌ مَقَامَ تَبَدُّلِ الذَّاتِ أَخْذًا مِنْ قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَرِيرَةَ هِيَ لَك صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ.
عن عطاء بن یسار أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل الصدقۃ لغني إلا لخمسۃ … أو لرجل کان لہ جار مسکین فتصدق علی المسکین فأهداہا المسکین لغني۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۳۱ رقم: ۱۶۳۵، سنن ابن ماجۃ ۱؍۱۳۲ رقم: ۱۸۴۱
وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (۳۸۵/۲،باب بناء المسجد و تکفین المیت)
 والحيلة في الجواز في هذه الأربعة أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه
الوجوه فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب كذا في المحيط۔  ( وکذافی الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۸ رقم: ۴۱۴۱ زکریا)
وفی الدرالمختار( ۲؍۲۹۳ کراچی)
وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی فقیر ثم ہو یکفن فیکون الثواب لہما وکذا في تعمیر المسجد۔  (فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۵۰، کفایۃ المفتی ۴؍۲۹۳)
الدر المختار للحصفكي - (ج 2 / ص 295)
(وافتراضها عمري) أي على التراخي، وصححه الباقاني وغيره (وقيل فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى)كما في شرح الوهبانية (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر (وترد شهادته) لان الامر بالصرف إلى الفقير معه قرينة الفور، وهي أنه لدفع حاجته وهي معجلة، فمتى لم تجب على الفور لم يحصل المقصود من الايجاب على وجه التمام، وتمامه في الفتح.
رد المحتار - (ج 7 / ص 304)
وما في البحر من أن التحقيق أنه بالتأخير يكون قاضيا لا مؤديا فيأثم للحديث تبع فيه صاحب الفتح وقدمنا أول الباب ترجيح خلافه فافهم
البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (ج 5 / ص 444)
وَلَوْ مَاتَ بَعْدَ إفْرَازِهَا كَانَتْ الْخَمْسَةُ مِيرَاثًا عَنْهُ ا هـ . بِخِلَافِ مَا إذَا ضَاعَتْ فِي يَدِ السَّاعِي لِأَنَّ يَدَهُ كَيَدِ الْفُقَرَاءِ
البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (ج 19 / ص 173)
والمقبوض في يد الوكيل بمنزلة الوديعة.
وفی المجلة الاحکام العدلیة
واذا مات المودع تسلم الودیعة لوارثہ ﴿مادة 446 الفصل الثانی فی احکام الودیعة وضمنانھا﴾
الدر المختار للحصفكي - (ج 4 / ص 468)
(فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير... (فإن جاء (فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها (أو تضمينه) والظاهر أنه ليس للوصي والاب إجازتها.نهر.
الدر المختار للحصفكي - (ج 2 / ص 292)
ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا، إلا إذا وكله الفقراء
رد المحتار - (ج 23 / ص 389)
( قوله : أو خلط إلخ ) أو بعرف شائع كما قدمناه أنه لا يضمن به تأمل
 
رد المحتار - (ج 6 / ص 490)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 5 / ص 49)
وفي الفتاوى: رجلان دفع كل واحد منهما زكاة ماله إلى رجل ليؤدي عنه فخلط مالهما ثم تصدق ضمن الوكيل، وكذا لو كان في يد رجل أوقاف مختلفة فخلط إنزال الاوقاف، وكذلك البياع والسمساروالطحان إلا في موضع يكون الطحان مأذونا بالخلط عرفا انتهى. وبه يعلم حكم من يجمع للفقراء، ومحله ما إذا لم يوكلوه فإن كان وكيلا من جانب الفقراء أيضا فلا ضمان عليه، فإذا ضمن في صورة الخلط لاتسقط الزكاة عن أربابها، فإذا أدى صار مؤديا مال نفسه. كذا في التجنيس.( قوله ضمن وكان متبرعا ) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه .قال في التتارخانية : إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان ا هـ أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير ، لما في البحر : لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه ا هـ لكن قد يقال : تجزي عن الآمر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع .قال في البحر : ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف .وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع ا هـ تأمل ، ثم قال في التتارخانية أو وجدت دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن من أرباب الحنطة بخلط ثمن الغلات ؛ وكذلك المتولي إذا كان في يده أوقيات مختلفة وخلط غلاتها ضمن وكذلك السمسار إذا خلط الأثمان أو البياع إذا خلط الأمتعة يضمن .ا هـ .قال في التجنيس : ولا عرف في حق السماسرة والبياعين بخلط ثمن الغلات والأمتعة ا هـ ويتصل بهذا العالم إذا سأل للفقراء شيئا وخلط يضمن .قلت : ومقتضاه أنه لو ما هو قربة ، وهو أصل التصدق دون التعيين فيبطل ، وتلزم القربة كما صرحوا به ، وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل
الموسوعة الفقهية الكويتية - (ج 8 / ص 34)
عقد الوكالة ينفسخ بموت الوكيل أو الموكّل عند عامّة الفقهاء ، لأنّها عقد جائز ينفسخ بالعزل ، والموت في حكم عزل الوكيل . وإذا مات الوكيل زالت أهليّته للتّصرّف ، وإذا مات الموكّل زالت صلاحيّته بتفويض الأمر إلى الوكيل فتبطل الوكالة .هذا ولا يشترط جمهور الفقهاء في انفساخ الوكالة علم الوكيل بموت الموكّل . واشترط بعض المالكيّة ( وهو رواية عند الحنابلة ) علم الوكيل بموت الموكّل في انفساخ الوكالة كما ذكره ابن رشدٍ . وهكذا الحكم في سائر العقود الجائزة كعقد الشّركة ، الوديعة وغيرهما تنفسخ بموت أحد العاقدين على تفصيلٍ في بعض الفروع يرجع إليها في مواضعها .
الموسوعة الفقهية الكويتية - (ج 41 / ص 287)
ذهب جمهور الفقهاء من الحنفيّة والمالكيّة والشّافعيّة والحنابلة إلى أنّ الوكالة تنفسخ بموت الموكّل أو الوكيل , وتبطل سائر الالتزامات المترتّبة عليها من الجانبين .أمّا الموكّل : فلأنّ التّوكيل إنّما قام بإذنه , وهو أهل لذلك , فلمّا بطلت أهليّته بالموت بطل إذنه , وانتقل الحق لغيره من الورثة .
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (ج 12 / ص 490)
وعلى هذا إذا مات الموكل ولم يعلم الوكيل بموته حتى قضى الدين ، لا ضمان عليه . وإذا كان عالما بموته ، ضمن لما قلنا - والله عز وجل - أعلم .
وفی رد المحتار - (ج 2 / ص 293)
فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة، ولو مات كانت ميراثا عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي لان يده كيد الفقراء.
وفی كتاب درر الحكام في شرح مجلة الأحكام(2/299)
 (الْمَادَّةُ 789إذَا خَلَطَ الْمُسْتَوْدَعُ الْوَدِيعَةَ بِإِذْنِ صَاحِبِهَا بِمَالِ آخَرَ عَلَى مَا ذُكِرَ فِي الْمَادَّةِ الْآنِفَةِ أَوْ اخْتَلَطَ الْمَالَانِ بِبَعْضِهِمَا الْبَعْضُ بِدُونِ صُنْعِهِ بِحَيْثُ لَا يُمْكِنُ تَفْرِيقُهُمَا مَثَلًا لَوْ انْخَرَقَ الْكِيسُ دَاخِلَ صُنْدُوقٍ وَاخْتَلَطَتْ الدَّنَانِيرُ الَّتِي فِيهِ مَعَ دَنَانِيرَ أُخْرَى يَصِيرُ الْمُسْتَوْدَعُ وَصَاحِبُ الْوَدِيعَةِ شَرِيكَيْنِ فِي مَجْمُوعِهَا. وَإِذَا هَلَكَتْ أَوْ ضَاعَتْ وَالْحَالَةُ هَذِهِ بِلَا تَعَدٍّ وَلَا تَقْصِيرٍ لَا يَلْزَمُ الضَّمَانُ.
رد المحتار - (ج 6 / ص 492)
فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثا عنه ، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي لأن يده كيد الفقراء بحر عن المحيط

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

15/1/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب