021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاوند کے مقروض ہونے کی وجہ سےفسخِ نکاح کا مطالبہ کرنا
73929طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

گزارش ہے کہ میری شادی کو گیارہ سال ہوئے ہیں اوراورمیری دو بیٹیاں ہیں ایک گیارہ سال کی ہے اوردوسری نو سال کی میرے شوہر کا اپنا کوئی کاروبارنہیں ہے وہ لوگوں سے ادھارلیکر گھر خرچے کےلیے دیتاہے یا لوگوں کو کاروبارکا جھانسہ دیکران سے پیسے لیتاہے اورخرچ کریتاہے اوران کے گھر والوں کو اس کا پتہ ہے مگروہ کچھ نہیں کہتے ،میں نے بچیوں کی ڈلیوری کا خرچہ  ادھارلیکر ادا کیاتھا میں نےاس کے مطالبے پر بھائیوں کو تیارکیا اورانہوں نے اس کو افریقہ بھیجالیکن وہاں  بھی نہیں سدھرا اورادھالینے لگاپھر پاکستان آیا یہ کہہ کر میری دبی میں جاب لگی ہے اوریہ انہوں جھوٹ نے بولاتھادبی جاکر بھی میرے بھائی سے قرض منگوایا،قرضدار جب ہمیں تنگ کرنے لگےتو میں  میکے آگئی، وہاں بھی قرضدارآتے رہیں جس کی وجہ سے والد صاحب کو گارڈرکھنا پڑا،اسی طرح میرے ایک بھائی کی 18لاکھ کی گاڑی انہوں نے جھانسہ دیکر بیچی اورایک رپیہ بھی نہیں دیاالغرض سینکڑوں واقعات ہیں جس کی وجہ سے تنگ آکرمیں نےپانچ پیشیاں بھگت کر عدالت سے خلع لےلی،پانچوں پیشیوں  کے وقت میرے خاوند عدالت میں حاضر نہیں ہوائےحالانکہ وہ کورٹ میں نیچے ہوتے تھے، خلع کے بعد پھر انہوں مجھے ورغلایا اورکہا کہ یہ خلع نہیں ہوئی اورفتوی بھی لے آئےمیں ان کے باتوں میں آگئی اوران کے پاس ان کے گھر چلی گئی مگروہاں حالات بدستورسابقہ تھےاورکوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی پھر انہوں  نےگاڑیوں کا کام شروع کیااورکہا کہ میں بدل چکاہوں، کچھ خوشحالی  ہوئی مگرپھر پتہ  چلاکہ یہ فراڈ ہے، کچھ لوگوں سے گاڑی دلانے کے لیے پیسے لیکر کھاجاتے ہیں اس طرح یہ قرض ہزاروں،لاکھوں سے ہوتاہوا کروڑوں تک جاپہنچا،یہ خود بھی ٹک ٹاک کا شوق رکھتےہیں اوربچیوں کےساتھ بھی منع کے باوجود ویڈیوز بناتےہیں ،قرضداروں کے خوف  سےایک مرتبہ گھر سے بھاگے ،میں اور بچیاں قرضداروں کے خوف سے اکیلے رہیں، پھرآکر کسی اورسے دس لاکھ کا قرض  لیااورسابقہ قرض خواہوں کودیا، اب جب سب نے مطالبہ شروع کیا تو پھر بھاگے ہوئے ہیں اورصرف واٹسپ پررابطہ کرتے ہیں میں نے خلع کا مطالبہ کیاتو پہلے تو منع کرتے تھے اوراب کہتے ہیں ٹھیک ہے ایک بیٹی مجھے دیدواورایک تم رکھ لواورکبھی یہ کہتےہیں کہ چھوڑنے یاعدالت جانے کی کوشش کی توتمہاری عزت اچھالوں گااورتمہاری زندگی حرام کردوں گا،مفتی صاحب اب میں اس آدمی کےساتھ نہیں رہ سکتی میری بچیاں بھی بہت چھوٹی ہیں اوران پر مجھے بالکل پھروسہ نہیں ہے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، لہذا میں ان سے تنسیخِ نکاح چاہتی ہوں آپ سے گزارش ہے کہ مندرجہ بالاحالات کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت کی رو سے مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں ؟ میں عدالت کے ذریعے خلع لینا چاہتی ہوں ،آپ ہماری رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 واضح رہے کہ احادیث شریفہ میں بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے لئے جنت کی خوشبوبھی  حرام ہے،تو اگر سوال میں مذکورحالات حقیقت پر مبنی نہ ہوں تو آپ ہر گز طلاق کا مطالبہ  نہ کریں ،آج کل کے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کواچھی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا، اس کوآگے شادی میں بھی مشکلات ہوتی ہیں،عزت اورروزی کے حوالے سےبھی  مشکل کا سامنا کرنا پڑتاہے، لہذا اگرآپ کا کسی طرح مذکورہ شوہرکے ساتھ گزارہ ہوسکتاہے تو سنجیدہ لوگوں کودرمیان میں ڈالکرمعاملہ کو رفع دفع کریں اوراپنا گھر نہ اجاڑیں ورنہ پھر پچتاوہ ہوگا۔تاہم اگر سوال میں ذکرکردہ صورتِ حال  بالکل صحیح ہے اوراس میں کسی قسم کی غلط بیانی نہیں کی گئی اوراس بناء پر آپ خلع لینے کی طلب گارہیں تواس کا شرعی حکم یہ ہے کہ خاوند سے خلع لینے کے لیے آپ کے پاس کوئی شرعی ریزن اورسبب کا ہوناضروری ہے ،صرف خاوند کا لوگوں سے قرضے لینااوران کے ساتھ فراڈ کرنا،قرضے واپس نہ کرنا یہ سب کام اپنی جگہ بہت ہی غلط کام ہیں جن سے توبہ اوراستغفارکرنااورلوگوں کےحقوق ادا کرنا آپ کے خاوند واجب ہےمگرشرعاً یہ چیزیں نکاح فسخ کرانے کا سبب نہیں،جب وہ آپ کونان ونفقہ دیتے ہیں جیسے کہ آپ نے اپنے سوال میں لکھاہے خواہ کہیں سے بھی لاکردیتاہوتوپھر آپ کو نکاح ختم کرانے کے مطالبے حق نہیں ہے۔

واضح رہے کہ عورت کوشرعاً درج صورتوں میں نکاح فسخ کرانے کے مطالبے کا اختیارہوتاہے۔

١۱۔شوہرنامردہو۔

۲۔ شوہر نان ونفقہ نہ دیتاہو۔

۳۔شوہر اتناغریب ہوکہ عورت کے نان ونفقہ کاانتظام نہ کرسکتاہو۔

۴۔شوہرکئی سالوں سے لاپتہ اوراس کاکوئی حال واحوال معلوم نہ ہو۔

 ۵۔ شوہر اس طرح پاگل ہوکہ عورت کواس سے جان کاخطرہ ہو۔

۶۔کوئی اورایسی وجہ ہو جو مذاہبِ اربعہ میں سے کسی مذہب کے مفتی بہ قول کے مطابق عدالتی فسخ کاسبب ہو۔

ان میں سے ہرایک کی الگ الگ تفاصیل ہیں جن کی رعایت شرعاًضروری ہے ،اگرکسی ایک شرط کی رعایت کے بغیر نکاح فسخ کیاجائے تووہ فسخِ نکاح نافذنہیں ہوگا۔

آپ نے جو وجہ لکھی ہے وہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے،کیونکہ نفقہ آپ کو خاوند دے رہاہےلہذا آپ کو فسخ نکاح کے مطالبے کا اختیارنہیں۔

جہاں تک آپ کے پہلے خلع کا تعلق ہےتو اسے دیکھے بغیرہم کوئی رائے نہیں دے سکتےکہ اس سے نکاح ختم ہوا ہے یا نہیں،کیونکہ تنسیخِ نکاح کےلیے شرعی بنیاد کا ہونا اورپھراس بنیاد کا واقعی ہونا ضروری ہے جس کا مطلوبہ ڈگری دیکھے بغیر فیصلہ نہیں ہوسکتا۔

حوالہ جات
سنن الترمذي - (ج 2 / ص 329)
عن ثوبان ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (المختلعات هن المنافقات) هذا حديث غريب من هذا
الوجه وليس إسناده بالقوى . وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : (أيما امرأة اختلعت من زوجها من غير بأس ، لم ترح رائحة الجنة) 1199 حدثنا بذلك محمد بن بشار . حدثنا عبد الوهاب الثقفى حدثنا أيوب ،عن أبى قلابة ، عمن حدثه ، عن ثوبان : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : (أيما امرأة سألت زوجها طلاقا من غير باس ، فحرام عليها رائحة الجنة) وهذا حديث حسن .
وفی الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ﴿9/495﴾
رأي الفقهاء في التفريق للشقاق:لم يجز الحنفية والشافعية والحنابلة  التفريق للشقاق أو للضرر مهما كان شديداً؛ لأن دفع الضرر عن الزوجة يمكن بغير الطلاق، عن طريق رفع الأمر إلى القاضي، والحكم على الرجل بالتأديب حتى يرجع عن الإضرار بها.وأجاز المالكية  التفريق للشقاق أو للضرر، منعاً للنزاع، وحتى لا تصبح الحياة الزوجية جحيماً وبلاء، ولقوله عليه الصلاة والسلام: «لا ضرر ولا ضرار» . وبناء عليه ترفع المرأة أمرها للقاضي، فإن أثبتت الضرر أو صحة دعواها، طلقها منه، وإن عجزت عن إثبات الضرر رفضت دعواها، فإن كررت الادعاء بعث القاضي حكمين: حكماً من أهلها وحكماً من أهل الزوج، لفعل الأصلح من جمع وصلح أو تفريق بعوض أو دونه، لقوله تعالى: {وإن خفتم شقاق بينهما، فابعثوا حكماً من أهله وحكماً من أهلها} ﴿النساء:35/4﴾.
وفی الشامیۃ (۴۴۱/۳):
قوله ( للشقاق ) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم  وفي القهستاني عن شرح الطحاوي السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع اهـ ط وهذا هو الحكم المذكور في الآية وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب ۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (29/ 58)                                                                            
التفريق للإعسار بالنفقة: - اتفق الفقهاء على وجوب النفقة للزوجة على زوجها بالعقد الصحيح ما لم تمتنع من التمكين، فإذا لم يقم الزوج بها لغير مانع من الزوجة كان لها حق طلبها منه بالقضاء، وأخذها جبرا عنه.فإذا امتنع الزوج عن دفع هذه النفقة لمانع من الزوجة، كنشوزها، لم يجبر عليها.وهل يكون للزوجة حق طلب التفريق منه إذا امتنع عنها بدون سبب من الزوجة؟اختلف الفقهاء في ذلك في بعض الأحوال، واتفقوا في أحوال أخرى على ما يلي: 
أ - إن كان للزوج الممتنع عن النفقة مال ظاهر يمكن للزوجة أخذ نفقتها منه، بعلم الزوج أو بغير علمه، بنفسها أو بأمرالقاضي، لم يكن لها طلب التفريق، لوصولها إلى حقها بغير الفرقة، فلا تمكن منها.ويستوي هنا أن يكون الزوج حاضرا أو غائبا، وأن يكون مال الزوج حاضرا أو غائبا أيضا، وأن يكون المال نقودا أو منقولات أو عقارات، لإمكان الأخذ منها.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

١٦/١/۱۴۴۲ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب