021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٕزیورکی زکوة میں کیابنوائی کی اجرت شامل ہوگی ؟
73925زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ہمارےہاں ایک بڑے مفتی صاحب تھے، دو سال ہوئےاب ان کا انتقال ہوگیاہے،40سے 45سال تک وہ سونے کے زیورات میں ابریق والے مسئلے کے تحت فتوی دیتے رہے جیسا کہ امداد الفتاوی جلد دوم میں موجود ہےیعنی بنوائی کی اجرت کو زیورمیں شامل کرکے زکوة نکالنے کا فرماتے تھے،اب اس سال کچھ نئے حضرات آئے ہیں جو کہتے ہے جس قیمت پر سنار خریدتاہے اس پر زکوة نکالنا چاہیے،یعنی اجرت نکال کر زکوة نکالی جائے، اس لیے کہ خریدتے وقت سنار اجرت نہیں لگاتے،اب سوال یہ ہے کہ یہاں دوقول   ہوگئے ہیں، ایک یہ کہ اجرت شامل کرکے زکوة دینی ہےاوریہ انفع للفقراء بھی ہے اوردوسرا یہ ہے کہ اجرت نکال کر دینی ہے، اگر ہم کہیں کہ دونوں طرح سے مسئلہ درست ہے توپھر پرابلم یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے تک ایک طرز پر فتوی دیا جاتا رہا ہے اور لوگ بھی اسی پر زکاة نکالتے رہے ہیں اوروہ انفع الفقراء بھی ہے،اب اگران نئے حضرات کے قول کے مطابق فتوی دیا جائے یعنی ایک درست مسئلے کو دوسرے درست مسئلے سے بدلیں تو یہ کیسے درست ہوگا؟  اس سے عوام میں شکوک و شبہات اور الجھن پیدا ہوگی،اوراگر دونوں مسئلوں کو بیان کرکے عوام پر چھوڑ دیاجائے کہ آپ جس پر چاہے عمل کریں تو ہمارے ہاں کبھی بھی یہ طرزِ عمل نہیں رہا۔نیزآپ یہ بیان فرمائیں کہ ابریق والی عبارت خاص ہے یا عام ہے یعنی صرف سنار کے ساتھ خاص  ہےکہ جب وہ اپنی زکوة نکالے گا تو اجرت کو شمار کرے گایا سب کےلیے یہ حکم ہے؟بقول مولانا اشرف علی تھانوی رح صاحب کےابریق والا مسئلہ اصل ہے اگریہی بات ہے توپھر عرف کا اعتبار کیوں ہوگا؟اس پر آپ کی رائے و تحقیق درکار ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ ہمارے علاقوں کارواج یہ ہے کہ جب صرافوں سے سونے،چاندی کے زیورات خریدے جاتے ہیں تووہ زیورات کے وزن میں کھوٹ،نگینوں،موتیوں اورزیورات تیارکرانے کی اجرت اوراخراجات کو بھی مجموعی قیمت میں شامل کرکے فروخت کرتے ہیں اوراس کے برعکس عام استعمال کرنے والے لوگوں سے ان زیورات کو خریدتے وقت خالص سونے یاچاندی کے زیورات کی قیمت ہی ادا کرتے ہیں اورکھوٹ وملاوٹ اورزیورات کی بنوائی اورتیاری کی اجرت کو قیمت میں شامل نہیں کرتے، بلکہ جتنی مقدارمیں خالص سونا یا چاندی اس زیورمیں موجودہوتی ہے، اسی کااعتبارکرکے بازاری حساب سے قیمت ادا کرتے ہیں۔

اہل علم حضرات کے نزدیک ایسی صورت میں زیورات کے تاجر اوراستعمال کنندہ دونوں فریقوں کے حق میں زکاة کی ادائیگی کا مسئلہ بھی مختلف ہوگا۔

چنانچہ عام استعمال کرنے والے لوگ ان زیورات کی زکوة اسی قیمت کے حساب سے ادا کریں گے جو قیمت انہیں فروخت کرنے کی صورت میں حاصل ہوگی ۔

اوران زیورات کے تاجراس قیمت کے حساب سے زکوة اداکریں گے،جس قیمت پر یہ زیورات گاہگوں کو فروخت کرتے ہیں ۔

لہذا امداد الفتاوی میں لکھا ہوا مسئلہ درست ہے، تاہم اگرپھربھی کوئی خریداربنوائی کی اجرت لگاناچاہتاہے تو یہ اعلی بات ہے اورنہ لگاناچاہے تو یہ بھی درست ہے،البتہ جہاں یہ عرف ہوکہ زیورات خریدناہو یا فروخت کرناہوبہرصورت زیورات کی بنوائی کی اجرت لگائی جاتی ہوتو پھر خریدار اورصراف دونوں ہی کو بنوائی کی اجرت لگاناپڑے گی ۔

     اصل مسئلہ اگرچہ ابریق والا ہے،لیکن اس کی بناء بھی عرف پر ہے، لہذا عرف مختلف ہوگا تو مسئلہ بھی مختلف ہوگا۔

حوالہ جات
قال ابن عابدين في رسالتہ في العرف:
والعرف في الشرع له اعتبار         *                    ولذا عليه الحكم قد يُدار
وقال فی الشامیة :
وھذا صریح فیما قلنا ان المفتی لاَیفتی بخلاف عرف اھل زمانہ.
فی امدادالفتاوی:
ہمارے دیار کا عرف  ہے کہ اگر سناریاسناریا صراف سے زیورخریدو تو وہ بنوائی لگاتاہے اوراگراس کے ہاتھ بیچوتو نہیں لگاتا،پس اس بناء پر مقتضی قاعدے کا یہ ہے کہ ایسے دیارمین مالک زیورات کا اگرتاجر زیورات کا ہے ،تب تو وہ زکاة میں بنوائی بھی لگادے ،اگر تاجر نہیں ہے ،محض استعمال میں لانے والاہے ،تو وہ نہ لگادے ،اگر کہیں عرف اس کے خلاف ہو تو وہاں ویساہی حکم ہوگا(امداد الفتاوی 2/49کتاب الزکوة والصدقات)
وفی  فتاوی عثمانی :
دکان کے سامان میں اعتباراس کا ہے کہ اگر یہ پوراسامان آج فروخت کیاجائے تو کیا قیمت لگے گی؟ قیمت خریدکا اعتبارنہیں (2/68کتاب الزکوة)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعة الرشید

١۳/١/١۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب