021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کی حدود میں وضوخانہ کی تعمیر
73959وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیا ن کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک پرانی چھوٹی مسجد تھی جس کو شہید کرکے نئی بڑی مسجد تعمیر کی گئی،صورت مسئلہ یہ ہے کی نئی مسجد کے نچلے والے حصے میں جو پرانی مسجد کا حصہ ہے،نئی مسجد کے برآمدے کے عین نیچے کچھ حصے پر وضوخانہ اور لیٹرین بن گئے ہیں۔ براہ کرام راہنمائی فرمائیں اس مسجد کے بارے میں کہ کیایہ شرعی مسجد کہلائے گی ؟کیا یہاں نماز بالکل صحیح بلاکراہت ہوگی؟ اور دوسری بات  یہ اگر معتکف اس برآمدہ والی جگہ پر گزرے تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل تو نہیں آئے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجد کی حدود متولی اور ذمہ داران مسجد  کی رائے کے مطابق متعین ہوتی ہیں،جس قدر حصہ وہ مسجد میں شامل کرنے کی نیت کرتے ہیں وہ مسجد شمار ہوگی ،اور جس جگہ کی نیت انہوں نے نہ کی ہو  وہ مسجد میں شامل  نہ ہوگی،لہذا اس حصے کی نیت اگر پہلے سے بطور مسجدکی ہویا ابھی نئی تعمیر کے وقت کی گئی ہو تو یہ مسجد کا حصہ شمار ہوگا۔ اس میں نماز پڑھنا اور معتکف کا جانا درست ہے۔

پرانی مسجد کی زمین اگر صرف نمازپڑھنےکےلیےوقف کی گئی ہواور وقف کرتے وقت کسی تعمیر کی نیت نہ کی گئی ہوتووہاں وضوخانہ اور لیٹرین بنانا  درست نہیں ہوگا۔

اوراگر وقف کرنے والے نےشروع سےاِن تعمیرات کی بھی نیت کی ہو،یااس  کی اجازت دی ہو، توایسی  صورت میں پہلی مرتبہ مسجدبناتےوقت مسجد کےمصالح کےلیےاِس تعمیر کی گنجائش ہے،اگرشروع سےایسی تعمیرات نہ کی گئیں اورایک مرتبہ مسجدشرعی بن گئی توپھراس پرکوئی اورچیزتعمیرنہیں کی جاسکتی۔

حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية (2/ 456):
في الكبرى مسجدا أراد أهله أن يجعلوا الرحبة مسجدا والمسجد رحبة وأرادوا أن يحدثوا له بابا
وأرادوا أن يحولوا الباب عن موضعه فلهم ذلك فإن اختلفوا نظر أيهم أكثر وأفضل فلهم ذلك، كذا في المضمرات.
وفی الفتاوى الهندية (2/ 455):
 رجل له ساحة لا بناء فيها أمر قوما أن يصلون فيها بجماعة فهذا على ثلاثة أوجه: أحدها إما أن أمرهم بالصلاة فيها أبدا نصا، بأن قال: صلوا فيها أبدا. أو أمرهم بالصلاة مطلقا ونوى الأبد. ففي هذين الوجهين صارت الساحة مسجدا لو مات لا يورث عنه۔
  وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين(4/358):
(وإذا جعل تحته سردابا لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها أو) جعل (فوقه بيتا وجعل  باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجدا. لو بنى فوقه بيتاللإمام لا يضر ؛لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ،ولو قال: عنيت ذلك لم يصدق، تتارخانية.فإذا كان هذا في الواقف،فكيف بغيره ،فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، قوله:(أو جعل فوقه بيتا): ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أولا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجدا فيما إذا لم يكن وقفا على مصالح المسجد وبه صرح في الإسعاف،فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجدا،شرنبلالية. وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا ،لينقطع حق العبد عنه ،بخلاف ما إذا كان السرداب والعلو موقوفا لمصالح المسجد، فهو كسرداب بيت المقدس۔
وفی تبيين الحقائق(3/303):
ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول ،فله بيعه ويورث عنه ،لأنه لم يخلص لله لبقاء حق العبد فيه، والمسجد لا يكون إلا خالصا لله؛ لما تلونا ومع بقاء حق العبد في أسفله أو في أعلاه أو في جوانبه محيطا به لايتحقق الخلوص كله.

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

19/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب