021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاوندکےظلم،زیادتی اورنفقہ کی عدم ادا ئیگی کی وجہ سےبیوی کافسخِ نکاح کا مطالبہ کرنا
73955طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میری بیٹی کی شادی خالہ کے بیٹےسے ہوئی، بدقسمتی سے وہ انتہائی بدتمیزاوربدکردارشخص نکلا ،وہ میری بچی پر ہرقسم کا جسمانی اورنفسیاتی ظلم اورتشددکرتا تھا ،گزشتہ ایک سال سے اس کو خرچہ اورراشن وغیرہ بھی بالکل نہیں دیتا تھا، میری بیٹی خودہی سلائی کڑائی کرکےبڑی مشکل سے اپنا اوراپنےتین بچوں کاپیٹ پالتی تھی اوربچوں کی تعلیم وغیرہ کاخرچہ بھی خود کرتی تھی،سلائی کڑائی یاوالدین سے کچھ رقم ان کو ملتی تو وہ بھی وہ ان سے چھین لیتا تھا، لہذا ان تمام حالات سے انتہائی تنگ آکر طلاق (خلع) کے لیے کورٹ سے رجوع کرلیا،اس لئے کہ اورکوئی راستہ نہیں تھا،کیا عدات/ کورٹ سے طلاق(تنسیخِ نکاح) کا جو فیصلہ آئے وہ شریعت کے مطابق درست اورجائز ہوگا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ احادیث شریفہ میں بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے لئے جنت کی خوشبوبھی  حرام ہے،تو اگر سوال میں مذکورحالات حقیقت پر مبنی نہ ہوں تو آپ ہر گز بیٹی کی طلاق کا مطالبہ  نہ کریں ، آج کل کے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کواچھی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا، اس کوآگے شادی میں بھی مشکلات ہوتی ہیں،عزت اورروزی کے حوالے سےبھی  مشکل کا سامنا کرنا پڑتاہے، لہذا اگرآپ  کی بیٹی کا کسی طرح بھی  مذکورہ شوہرکے ساتھ گزارہ ہوسکتاہے تو سنجیدہ لوگوں کودرمیان میں ڈالکرمعاملہ کو رفع دفع کریں اوربیٹی کا گھر نہ اجاڑیں ورنہ پھر پچتاوہ ہوگا۔تاہم اگر آپ واقعةًآپ کی بیٹی مظلوم ہے اورسوال میں ذکرکردہ صورتِ حال  بالکل صحیح ہے اوراس میں کسی قسم کی غلط بیانی نہیں کی گئی توپھر آپ  کی بیٹی جیسے مظلوم عورت کے لیے شریعت میں یہ سہولت موجود ہے کہ وہ اپنا دعوی قریبی عدالت میں پیش کریں، اورعدالت میں گواہوں سے اپنادعوی ثابت کریں پھر عدالت فریقین کے بیان سن کر اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ کی بیٹی مظلوم ہے، اوراس کےساتھ شوہر یقیناًظالمانہ برتاؤ کررہا ہے،اورنفقہ نہیں دے رہاہے توپھر عدالت آپ کی بیٹی جیسی مظلوم عورت کا اس کے شوہر سے نفقہ نہ دینے کی وجہ سےنکاح فسخ کرسکتی ہے؛ لہٰذا آپ اپنی بیٹی کا معاملہ عدالت کے روبرو پیش کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (الحیلۃ الناجزۃبتصرف)

واضح رہے کہ موجودہ زمانے میں عدالتوں سے جاری ہونے والی خلع کی اکثر ڈگریاں غیر شرعی بینادوں پر ہونے کی وجہ سے شرعاً غیر موثر ہوتی ہیں اوران سے نکاح ختم نہیں ہوتا،لہذا جب آپ عدالت سے خلع لیں تو کسی شرعی بنیاد مثلاًنفقہ نہ ملنے کی وجہ سے دعوی دائرکریں اوراپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں (دو دیانتدارمرد یا ایک مرد اوردو عورتوں کی گواہی سے ثابت بھی کریں)ورنہ غیر شرعی بنیاداوربغیرشرعی گواہوں کے ایک فریق کے بنانِ حلفی پر لیاجانے والا عدالتی فیصلہ شرعاًغیرمعتبرہوگا اوراس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما امرأۃ سألت زوجہا طلاقاً في غیر ما بأس فحرام علیہا رائحۃ الجنۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۳۰۳ رقم: ۲۲۲۶، سنن الترمذي رقم: ۱۱۸۷، مسند أحمد ۵؍۲۷۷، مشکاۃ المصابیح ۲۸۳ رقم: ۳۲۷۹، المستدرک للحاکم ۲؍۲۱۸ رقم: ۲۸۰۹، السنن الکبریٰ للبیہقي ۷؍۳۱۶)
سنن الترمذي - (ج 2 / ص 329)
عن ثوبان ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (المختلعات هن المنافقات) هذا حديث غريب من هذا
الوجه وليس إسناده بالقوى . وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : (أيما امرأة اختلعت من زوجها من غير بأس ، لم ترح رائحة الجنة) 1199 حدثنا بذلك محمد بن بشار . حدثنا عبد الوهاب الثقفى حدثنا أيوب ،عن أبى قلابة ، عمن حدثه ، عن ثوبان : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : (أيما امرأة سألت زوجها طلاقا من غير باس ، فحرام عليها رائحة الجنة) وهذا حديث حسن .
قال اللّٰہ تعالیٰ:
 {فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لَا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ} (البقرۃ: ۲۲۹)قد صرح في الخانیۃ: بأنہا لو أبرأتہ عمالہا علیہ علی أن یطلقہا، فإن طلقہا جازت البراء ۃ وإلا فلا۔ (شامي ۵؍۱۰۷ زکریا، ۳؍۴۵۴)
وفی الھندیۃ (۴۸۸/۱):
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية۔
وفی الشامیۃ (۴۴۱/۳):
قوله ( للشقاق ) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم  وفي القهستاني عن شرح الطحاوي السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع اهـ ط وهذا هو الحكم المذكور في الآية وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب ۔
وفی البحرالرائق  کتاب الطلاق( ج ۳ ص ۲۵۳)
واما سبعہ فالحاجۃ الی الخلاص عند تبائن الا خلا ق و عروض البغضاء المو جبۃ عدم اقامۃ حدود اﷲ الخ ویکون واجبااذا فات الا مساک بالمعروف .
وفي الہدایۃ:
وإن تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اللہ، فلا بأس بأن تفتدي نفسہا منہ بمال یخلع بہ۔ لقولہ تعالیٰ:
فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ، فإذا فعل ذٰلک وقع بالخلع تطلیقۃ بائنۃ ولزمہا المال، …وإن طلقہا علی مال، فقبلت وقع الطلاق ولزمہا المال۔ (ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، اشرفی دیوبند ۲/۴۰۴)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

١۹/١/۱۴۴۳ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب