021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایڈوانس کی رقم سے مسجد کی دکانیں اور ان پر دوسری مستقل مسجد بنانا
73968وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درجِ ذیل صورتِ حال کے بارے میں:

بڑی مسجد ناگپور کے چند وقف کردہ مکانات ہیں۔ ان مکانات میں سے دو مکانوں کی تعمیر ازسرنو کی گئی ہے۔ یہ تعمیر ِنو کرایہ داروں سے لاکھوں روپے ایڈوانس لے کر عمل میں آئی ہے، ٹرسٹی کمیٹی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ایڈوانس کی یہ رقم مبلغ ایک کروڑ دس لاکھ روپے ہے۔ ان میں سے ایک مکان نمبر 647 جو محمد علی روڈ پر واقع ہے، سہ منزلہ ہے، اس میں تمام کرائے دار رہتے ہیں ۔ لیکن دوسرا مکان جو حیدری روڈ مومن پورہ ناگپور میں واقع ہے، وہ دو منزلہ ہے، اس کی میدانی منزل میں کئی دکانیں کرایہ پر دی گئی ہیں، اور دوسری اور تیسری منزل میں پنج وقتہ نماز اور جمعہ کی نماز کا اہتمام ہے۔

 وضاحت: سائل نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہمارے ہاں کرایہ داروں کے ساتھ معاہدہ غیر متعین مدت کے لیے نہیں، بلکہ متعین مدت کے لیے ہوتا ہے۔ کرایہ دار سے جو رقم لی جاتی ہے وہ مدت ختم ہونے پر اسے واپس کردی جاتی ہے۔ البتہ اگر مدت مکمل ہونے کے بعد فریقین کرایہ داری کا معاملہ آگے بھی کرنا چاہیں تو پھر نیا معاہدہ کرتے ہیں اور وہی ایڈوانس رقم مالک کے پاس رہتی ہے یا جیسے فریقین راضی ہوں۔ اس رقم کی وجہ سے کرایہ دار کو یہ اختیار نہیں ملتا کہ وہ غیر متعینہ مدت کے لیے کرایہ کی جگہ پر رہے یا اگر چاہے تو اپنا حقِ اجارہ کسی کو بیچ کر اس کے بدلے میں رقم لے تاکہ پھر مالک کے ساتھ اس تیسرے شخص کا معاملہ ہو، بلکہ وہ صرف خود اس جگہ میں رہ سکتا ہے۔ مسجد کی مذکورہ دکانوں کی کرایہ داری کا معاہدہ تین سال کا ہواہے۔ البتہ یہ مدت پوری ہونے کے بعد اگر فریقین معاہدہ باقی رکھنا چاہیں تو اس کی تجدید کرلیں گے۔ ایڈوانس رقم اس وقت واپس ہوگی جب کرایہ دار دکانیں خالی کریں گے۔  

مسجد کی دکانوں کے اوپر  پہلی اور دوسری منزل پر مصلیٰ نہیں، بلکہ مستقل مسجد بنائی جائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں ایڈوانس کی رقم سے بنائی گئی مسجد کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟  اس مسجد میں پنچ وقتہ نماز اور جمعہ کی نماز ادا کی جا سکتی ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں جب مسجد کے دکانوں کی یہ ایڈوانس رقم پگڑی نہیں، بلکہ زرِ ضمانت ہے تو اگر اس کی وجہ سے دکانوں کے کرایہ میں کمی نہ کی گئی ہو تو یہ رقم لینا اور اس سے بڑی مسجد ناگپور کی دکانوں اور ان کے اوپر نمازوں کے لیے دو منزلوں کی تعمیر درست تھی۔ ان دو منزلوں میں پنچ وقتہ نمازیں اور نمازِ جمعہ بلا شبہہ ادا کی جاسکتی ہیں۔  

تاہم یہ دو منزلیں مصلّٰی کے حکم میں ہوں گی، مسجدِ شرعی نہیں بنیں گی؛ لہٰذا ان میں اعتکاف درست

نہیں ہوگا۔ مسجدِ شرعی نہ بننے کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کو مسجدِ شرعی بنایا گیا تو یہ بذاتِ خود مستقل وقف

 بن جائیں گی اور بڑی مسجد ناگپور کی ملکیت نہیں رہیں گی، پھر ان سے اس مسجد کے لیے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکے گا جو کہ درست نہیں؛ کیونکہ یہ دکانیں اور ان کے اوپر کی تعمیرات اور ان کے فوائد بڑی مسجد ناگپور کی ملکیت ہے اور اسی کے ساتھ خاص ہیں، اس لیے انہیں مستقل وقف بنانا یا کسی اور وقف کو دینا جائز نہیں۔ ان دو منزلوں کو مستقل مسجد بنانا غرضِ واقف کے بھی خلاف ہے، جبکہ واقف کی صحیح غرض اور مقصد کی رعایت شرعا لازم اور ضروری ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار (4/ 433):
                       قولهم شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالةووجوب العمل به.
رد المحتار (4/ 445):
                          إنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة.
تبيين الحقائق (3/ 328):
قال رحمه الله: ( ويصرف نقضه إلى عمارته إن احتاج وإلا حفظه للاحتياج ) أي إلى الاحتياج؛ لأنه لا بد من العمارة وإلا فلا يبقى فلا يحصل صرف الغلة إلى المصرف على التأبيد فيبطل غرض الواقف، فيصرفه للحال إن احتاج إليه، وإلا يمسكه حتى يحتاج إليه كي لا يتعذر عليه أوان الحاجة. قال رحمه الله ( ولا يقسمه بين مستحقي الوقف ) أي لا يقسم النقض بينهم؛ لأنهم ليس لهم حق في العين ولا في جزء منه، وإنما حقهم في المنافع، فلا يصرف إليهم غير حقهم، وإن تعذر إعادة عينه بيع وصرف ثمنه إلى العمارة لأن البدل يقوم مقام المبدل فيصرف مصرف البدل.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     19/محرم الحرام /1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب