021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے لیے قرض لینے کا شرعی حکم
73969وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درجِ ذیل صورتِ حال کے بارے میں:

بڑی مسجد ناگپور کے چند وقف کردہ مکانات ہیں۔ ان مکانات میں سے دو مکانوں کی تعمیر ازسرنو کی گئی ہے۔ یہ تعمیر ِنو کرایہ داروں سے لاکھوں روپے ایڈوانس لے کر عمل میں آئی ہے۔

کیا وقف الی اللہ کو ایڈوانس کی رقم سے گرا ں بار کیا جا سکتا ہے ؟ ہمارے نزدیک ایسی صورت میں وقف الی اللہ ہمیشہ مقروض رہے گا۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

متولئ وقف کا ہر کام اور تصرف وقف کی بہتری اور مصلحت پر موقوف ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے وقف کے گھروں کو کرایہ پر دینے میں ایک سال اور زرعی زمینوں میں

تین سال کی مدت کی تحدید فرمائی ہے۔تاہم عرف اور وقف کی مصلحت کے پیشِ نظر اِس مدت میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے،البتہ اتنی طویل مدت کے لیے کرایہ پر دینے سے احتراز لازم ہےجس سےوقف کو نقصان ہویااس پر غاصبانہ قبضے کا امکان ہو۔ مسجد کی وقف دکانوں میں اس تفصیل پر عمل کرنا لازم ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد کے متولی حضرات اور محلہ کے سمجھ دار اور دین دار ارباب حل و عقد نے مسجد کی دکانوں کی از سرِ نو تعمیر کے لیے قرض لینے کو مسجد کے حق میں بہتر سمجھا اور اس کی وجہ سے مسجد کی دکانوں پر کسی کے قبضہ یا غصب کا کوئی امکان بھی نہیں ہے، بلکہ اس کی ادائیگی کا کچھ نہ کچھ انتظام ممکن ہے تو کرایہ دار کی صریح یا دلالۃً اجازت سے ایڈوانس کی رقم سے یہ تعمیرِ درست تھی۔اب مسجد کی کمیٹی اور اہلِ محلہ کو اس قرض کی واپسی کے لیے واضح لائحۂ عمل بنانا چاہیے؛ تاکہ مسجد یا اس کی دکانوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔

حوالہ جات
الإسعاف فی أحکام الأوقاف (ص، 56):
(فصل فی بیان مایجوز للقیم من التصرف ومالایجوز)……ویتحری فی تصرفاته النظرللوقف والغبطة،لان الولایة مقیدة به………الخ
الدر المختار(4/ 400):
فصل يراعى شرط الواقف في إجارته فلم يزد القيم بل القاضي لأن له ولاية النظر لفقير وغائب وميت (فلو أهمل الواقف مدتها قيل تطلق) الزيادة للقيم (وقيل تقيد بسنة) مطلقا (وبها) أي بالسنة (يفتى في الدار وبثلاث سنين في الأرض)إلا إذا كانت المصلحة بخلاف ذلك وهذا مما يختلف زمانا وموضعا.
رد المحتار (4/ 400):
(قوله: فلم يزد القيم إلخ) يعني إذا شرط الواقف أن لا يؤجر أكثر من سنة، والناس لا يرغبون
 في استئجارها وكانت إجارتها أكثر من سنة أنفع للفقراء فليس للقيم أن يؤجرها أكثر من سنة
بل يرفع الأمر للقاضي، حتى يؤجرها لأن له النظر للفقراء والغائب والميت، وإن لم يشترط الواقف فللقيم ذلك بلا إذن القاضي كما في المنح عن الخانية، ولو استثنى فقال لا تؤجره أكثر من سنة إلا إذا كان أنفع للفقراء فللقيم ذلك إذا رآه خيرا بلا إذن القاضي، إسعاف.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     19/محرم الحرام /1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب