021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وقت کی تعیین کیے بغیرملازم اجیرِخاص ہو گا یا مشترک؟
73971اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

میرا ایک دوست پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں پڑھاتا تھا،کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہو گئے تو اس نے ایک سرکاری ہسپتال میں کنٹریکٹ پر ملازمت شروع کر دی ،جس میں ڈیوٹی مختلف شفٹوں میں ہوتی ہے،تعلیمی اداروں کے کھل جانے کے بعد اس نے کالج میں دوبارہ پڑھانا شروع کر دیا اور ہسپتال میں اپنے مجاز آفیسر (جس کو کنٹریکٹ پر ملازم رکھنے اور نکالنے کا اختیار حکومت کی جانب سے حاصل ہے) سے درخواست کی کہ میری ڈیوٹی ہسپتال میں رات کے وقت کی لگادیں ،تاکہ میں صبح کو کالج پڑھانے جاسکوں، اِس پر اُس آفیسر نے جواب دیا کہ میں آپ کی ڈیوٹی ایک اور آفیسر کے ساتھ ان کی خدمت کیلئے لگا دیتا ہوں (جس کے ساتھ ڈیوٹی لگانے کا اختیار مجھے حاصل ہے)۔ اب یہ ملازم اس آفیسر کو جس کی خدمت پر اس کو مامور کر دیا گیا ہے  اس سے دریافت کرتا رہتا ہے کہ آپ کو جب بھی میری خدمت کی ضرورت ہو تو مجھے بلالیجیے گا، میں کالج سے رخصت لے کر آجاؤں گا۔ اگر کام ہوتا تو وہ آفیسر اسے بلا لیتا ہے ،ورنہ رخصت دے دیتا، اس طور پر ایک مہینہ ایسا بھی گزرا ہے جس میں اس نے ایک دن بھی ڈیوٹی نہیں دی، اس صورت میں چونکہ ملازم نے اپنے آپ کو اس آفیسر کے سپرد کر دیا ہےکہ آپ جب مجھے بلائیں گے میں آجاؤں گا، لیکن آفیسر نے اس سے کام نہیں لیا تو اس کے لیے اس مہینے کی تنخواہ لینا جائز ہے یا نہیں ؟ جبکہ ہسپتال سے ڈیوٹی تبدیل کر کے آفیسر کے ساتھ ڈیوٹی لگانے سے ہسپتال کے امور میں بھی کوئی حرج نہیں آ رہا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے بطورِ تمہید دو باتیں جاننا چاہیے :

پہلی بات:

اجارة الاشخاص (کسی شخص کا بطورِ ملازم اجرت پر کسی شخص کا کام کرنا) کی دو قسمیں ہیں: الف: اجيرِخاص: اجیرِ خاص کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کا مخصوص وقت کے دوران صرف کسی ایک شخص، ادارے یا کمپنی کے لیے ہی کام کرنا، یہ شخص ڈیوٹی کے دوران کسی اور فرد یا ادارے کے لیے کام کرنے کا مجاز نہیں ہوتا، بلکہ اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ معاہدے (Agreement) میں طے شدہ وقت کے دوران تسلیم النفس یعنی اپنی ذات کو کام کے لیے اسی شخص کے سپرد کیے رکھے، پھرخواہ دوسرا شخص (جس نے اجاره پر ليا ہے) اس شخص سے اس وقت کے دوران کام لے یا نہ لے، بہر صورت یہ شخص اپنی ذات کو مقررہ وقت کے دوران مستاجر کے سپردکرنے  اور اس کے لیے محبوس رہنے کی وجہ سے اجرت کا مستحق ہوتا ہے۔

ب: اجيرِ مشترك: یہ شخص کسی ایک فرد یا ادارے کے لیے مختص نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہرخاص و عام کے لیے اجرت پر کام کرتا ہے، جیسے دھوبی اور درزی وغیرہ، اس کے ساتھ معاہدہ کام کی بنیاد پر ہوتا ہے اور یہ شخص اپنے کام کی  تکمیل کی بنیاد پر ہی اجرت کا مستحق ہوتا ہے، اس میں وقت کی تعیین نہیں ہوتی، خواہ کم وقت میں کرے یا زیادہ وقت میں، بہر صورت کام مکمل کرنے پر طے شدہ اجرت ہی ملے گی۔

دوسری بات:

حکومتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے بعض ملازمین سے معلوم ہوا کہ حکومت کی طرف سے اس طرح بیک وقت  دو شعبوں میں کل وقتی (معاہدہ میں طے شدہ اوقات جیسے آٹھ گھنٹے وغیرہ)  ملازمت اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے،بلکہ ایک وقت میں ایک شخص کل وقتی ملازمت ایک ہی جگہ  اختیار کر سکتا ہے، نیز خدمت پر مامور ایسے ملازمین کے لیے بھی باقاعدہ ڈیوٹی کا وقت طے ہوتا ہے، جس میں اس ملازم کے لیے  معاہدے میں طے شدہ مکمل وقت  ڈیوٹی کی جگہ پر حاضر اور موجود رہنا ضروری ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی افسر اس کو دوسری جگہ کل وقتی ملازمت کرنے کی اجازت دے تو یہ حکومت کے قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔

مذکورہ بالا تمہید کی روشنی میں سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر مذكوره افسر كے ساتھ ڈيوٹی كا وقت بھی وہی ہے جو کالج میں پڑھانے کا ہے تو ایسی صورت میں آپ کا ہسپتال کےافسر کے ساتھ خدمت کرنے کا معاملہ اجیرِ مشترک کا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ہسپتال کی طرف سے حکومتی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے  آپ کو ڈیوٹی کے وقت کے دوران ہسپتال میں  موجود رہنے اور کسی اور ادارے کا کام نہ کرنے  کا پابند نہیں  بنایا گیا،  بلکہ اس دوران دوسری جگہ کل وقتی  ملازمت اختیار کرنے  کی اجازت دی تھی،  لہذا آپ کا ہسپتال کی انتظامیہ سے اجازت لے کرکالج میں کل وقتی  ملازمت اختیار کرنے  کی وجہ سے اجیرِخاص کا معاملہ شرعاً اجیرِمشترک میں تبدیل ہو گیا، کیونکہ  فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اگر مستاجر اجیر ِخاص کو اجرت پرکسی اور کاکام کرنے کی بھی اجازت دیدے تو وہ اجیرِ مشترک بن جاتا ہےاور  کتبِ فقہ میں اس کی مثال یہ ذکر کی  گئی ہے کہ  اگر کسی شخص نے کسی کو ایک مہینہ اپنی بکریاں چرانے کے لیے اجرت پر مقرر کیا تو یہ اجیرِ خاص ہو گا، لیکن اگر اس کے ساتھ اس کو دوسرے شخص کی بکریاں چرانے کی بھی اجازت دیدی تو یہ اجیرِ مشترک ہو جائے گا اور اجیرِ مشترک  صرف اپنے کام کی اجرت کا مستحق ہوتا ہے۔

لہذا کالج میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد  مذکورہ افسر نے آپ سے جتنی خدمت لی ہے اصولی طور پر آپ صرف اپنے کام اور خدمت کا معاوضہ لینے کے مستحق تھے، لہذا جس مہینہ میں آپ نے بالکل خدمت نہیں کی تواس مہینے کی تنخواہ آپ کوہسپتال سے لینے کا حق حاصل نہیں ہے اور یہ ہسپتال چونکہ سرکاری ہے اس لیے اس تنخواہ کو تبرع اور ہبہ بھی شمار نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ تنخواہ سرکاری خزانے میں جمع کروانا ضروری ہے۔

جہاں تک گزشتہ مہینوں کی تنخواہ لینے کا تعلق ہے تو چونکہ آپ کاہسپتال کے ساتھ کیا گیا  معاملہ اصولی طور پر اجیرِ مشترک میں تبدیل ہو چکا تھا اور اجیرِمشترک کے کام کی علیحدہ طور پر اجرت طے ہونا ضروری ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں کام کی تنخواہ طے نہیں کی گئی تھی، بلکہ اجیرِ خاص شمار کرکے پورے مہینے کی اجرت طے کی گئی تھی، اس لیے یہ اجارہ فاسدہ ہو گیا اور اجارہٴ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ کام کرنے والے  شخص کو اپنی خدمت کی اجرتِ مثل (عام طور پر اس طرح کی خدمت کرنے پر جو اجرت معاشرے میں دی جاتی ہو) ملے گی، لہذا گزشتہ مہینوں کی تنخواہ اگر آپ نے اپنے کام کی اجرتِ مثل کے حساب سے وصول کی ہے تو جائز ہے، ورنہ اضافی تنخواہ حکومتی خزانہ میں جمع کروانا ضروری ہے۔

نیز یہ بھی یاد رہے کہ تمہید میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق چونکہ حکومت کی طرف سے اس طرح دو شعبوں میں بیک وقت (مثلا: صبح آٹھ سے شام دو بجے تک دونوں جگہ مستقل ڈیوٹی کی جائے، لیکن اگر ایک صبح اور ایک شام کی جائے تو مضائقہ نہیں) ملازمت اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے، جبکہ حکومتی کاغذات میں آپ  ابھی تک ہسپتال کے مستقل ملازم ہیں، اس لیے آپ پر لازم ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ملازمت چھوڑ کر کسی ایک جگہ کل وقتی ملازمت اختیار کریں، اس طرح ایک وقت میں دو جگہوں پر کل وقتی ملازمت اختیار کر کے دونوں جگہوں سے تنخواہ وصول کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔

البتہ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ ہسپتال کے مجاز آفیسر سے بات کرکے آپ رات کی ڈیوٹی لگوا لیں اور اگر دونوں ڈیوٹیاں دن کے وقت ہی کرنی ہوں تو پھر دونوں جگہ ڈیوٹی کے اوقات مختلف طے ہونا ضروری ہے، مثلاً: صبح کے وقت کالج کا وقت اور شام کے وقت میں ہسپتال کی ڈیوٹی ہونی چاہیے یا یہ کہ ہسپتال کا وقت پہلے وقت میں ہوتو پھر کالج کا دوسرے  وقت میں طے کر لیا جائے۔ اس طرح دو مختلف اوقات میں ڈیوٹی لگوانے کی صورت میں اگر آپ کو ڈیوٹی کے وقت ہسپتال میں ٹھہرنا ضروری ہو یا یہ کہ ہسپتال کے قریب کسی ایسی جگہ پر ہوں کہ ضرورت کے وقت فوراً پہنچ سکتے ہوں تو آپ اجیرِ خاص ہوں گے اور اس صورت میں آپ کے لیے ماہانہ تنخواہ لینا جائز ہو گا، البتہ اگر آپ ہسپتال سے دور ہوں اور بوقتِ ضرورت فوراً پہنچنا مشکل ہو تو پھر آپ تمہید میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اجیرِ مشترک ہوں گے اور آپ کو صرف اپنے کام کی تنخواہ لینے کا حق حاصل ہو گا۔   

حوالہ جات
     الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 69) دار الفكر-بيروت:
(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا۔
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 137) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
قال - رحمه الله - (والخاص يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم) أي الأجير الخاص يستحق الأجرة بتسليم نفسه للعمل عمل أو لم يعمل سمي أجيرا خاصا وأجير وحد؛ لأنه يختص به الواحد وهو المستأجر وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة له والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنعه من العمل۔
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 586) دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان:
 وإذا جمع بين العمل وبين المدة وذكر العمل أولاً نحو: أن يستأجر راعياً مثلاً ليرعى له غنماً مسماة بدرهم شهراً يعتبر هو أجيراً مشتركاً؛ لأنه جعله أجير مشترك بأول الكلام. لأنه أوقع العقد على العمل في أول كلامه. وقوله شهراً في آخر كلامه يحتمل أن يكون لإيقاع العقد على المدة، فيصير أجير واحد، ويحتمل أن يكون تقديراً للعمل الذي أوقع العقد عليه، فإنه لا بد من تقديره، ولا يمكننا تقديره إلا ببيان المدة في هذه الصورة، فلا يتغير أول الكلام بالاحتمال، إلا إذا صرح في آخر كلامه بما هو حكم أجير الوحد، بأن قال: على أن لا يرعى غنم غيري مع غنمي؛ لأنه بما صرح جعله أجير واحد، وبين أنه ذكر المدة لإيقاع العقد على المدة، لا لتقدير العمل المذكور في أول الشهر، وإذا كان صريحاً في جعله أجير واحد بأول الكلام؛ لأنه أوقع العقد على المدة في أول الكلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فنقول: استأجرتك شهراً للخدمة أو للرعي أو للحصاد؛ لأن أنواع العمل متفاوت. وإذا كان كذلك لا يتغير حكم أول الكلام بالاحتمال، فبقي أجير واحد، إلا إذا نص في آخر كلامه بما حكم الأجير المشترك. فيقول: ويرعى غنم غيري مع غنمي، فيكون تصريحاً منه أنه جعله أجيراً مشتركاً، فيتغير به أول الكلام، ويصير أجيراً مشتركاً من هذا الوجه.
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز(: ۱ /۲۳۹):
"الأجیر الخاص یستحق الأجرۃ إذا کان فی مدۃ الإجارۃ حاضراً للعمل ۔۔۔۔ غیر أنہ یشترط أن یتمکن من العمل ، فلو سلم نفسہ ولم یتمکن فیہ لعذر کالمطر والمرض ، فلا أجر لہ ، ولکن لیس لہ أن یمتنع عن العمل وإذا امتنع لا یستحق الأجرۃ".
الفتاوى الهندية (4/ 500) دار الفكر،بيروت:
وإذا جمع بين العمل وبين المدة وذكر العمل أولا نحو أن يستأجر راعيا مثلا ليرعى له غنما مسماة بدرهم شهرا يعتبر هو أجيرا مشتركا إلا إذا صرح في آخر كلامه بما هو حكم أجير الوحد بأن قال على أن لا ترعى غنم غيري مع غنمي وإذا ذكر المدة أولا نحو أن يستأجر راعيا شهرا ليرعى له غنما مسماة بدرهم يعتبر هو أجير وحد بأول الكلام إلا إذا نص في آخر كلامه بما هو حكم الأجير المشترك فيقول وترعى غنم غيري مع غنمي. كذا في الذخيرة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 69) دار الفكر-بيروت:
 (قوله عملا مؤقتا) خرج من يعمل لواحد من غير توقيت كالخياط إذا عمل لواحد ولم يذكر مدة ح. (قوله بالتخصيص) خرج نحو الراعي إذا عمل لواحد عملا مؤقتا من غير أن يشرط عليه عدم العمل لغيره.
قال ط: وفيه أنه إذا استؤجر شهرا لرعي الغنم كان خاصا وإن لم يذكر التخصيص، فلعل المراد بالتخصيص أن لا يذكر عموما سواء ذكر التخصيص أو أهمله، فإن الخاص يصير مشتركا بذكر التعميم كما يأتي في عبارة الدرر (قوله وإن لم يعمل) أي إذا تمكن من العمل، فلو سلم نفسه ولم يتمكن منه لعذر كمطر ونحوه لا أجر له كما في المعراج عن الذخيرة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 71) دار الفكر-بيروت:
(قوله لكونها أجير وحد) قال أبو السعود: الحاصل أن المسائل في الظئر تعارضت، فمنها ما يدل على أنها في معنى أجير الوحد كقولهم بعدم الضمان في هذه، ومنها ما يدل على أنها في معنى المشترك كقولهم: إنها تستحق الأجر على الفريقين إذا أجرت نفسها لهما. قال الأتقاني: والصحيح أنه إن دفع الولد إليها لترضعه فهي أجير مشترك وإن حملها إلى منزله فهي أجير وحد. ملخصا ط.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

20/محرم الحرام1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب