74008 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
آپ نے پچھلے مسئلے کا جو حل دیا ہے (فتوی نمبر73927 )اس میں آپ نے میرے بڑے بھائی محمد طارق کے حصے کا ذکر کیا ہے،میں محمد شارق نے لیاقت آباد والے گھر میں چھت کا کمرہ اور باتھ روم وغیرہ بنوایا تھا جس کی وجہ سے گھر کی قیمت بڑھ گئی تھی۔
ایک مرتبہ محمد طارق نے مجھ سےتین لاکھ کا تقاضہ کیا تھا، میرے پوچھنے پر بولے کہ میرے حصے میں سے مجھے دے دیں،میں نے ابوجان سے بولا تو ابو نے بھائی سے بات کی کہ کون سا حصہ چاہیے؟ ابھی تو میں زندہ ہوں،اس پر بات کافی بڑھ گئی،لڑائی جھگڑا بھی ہوا،ابو بیمار ہوگئے،ایک دن بھائی ایک کاغذ لے کر آئے اور بڑی بہن سے کہاکہ اس پر ابو کے دستخط اور انگوٹھے کا نشان لے لو،انہوں نے منع کیا اور کہا کہ جب ابو ٹھیک ہوجائیں گے تو تب بات کرنا،پھر تھوڑے عرصے بعد آکر بولے کہ میں نے گھرکی قیمت لگوالی ہے، میرے ساڑھے چھ لاکھ بنتے ہیں، وہ مجھے چاہیے،اس بات پر ابو نے سختی سے منع کیا تو انہوں نے قانونی کاروائی کرنے کی دھمکی دی اور کسی مولوی سے بات کی تھی۔
طارق بھائی کو پیسوں کی ضرورت تھی،پھر بڑے بہنوئی محمد رشید اور طارق بھائی کے سالے محمد خالد اس میں شامل ہوئے،ابو جوکہ 2002 سے کام وغیرہ نہیں کرتے تھے گھر کا خرچہ میں چلاتا تھا،بھائی نے ایک ایگریمنٹ بنوایا جو کہ میں نے اس کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔
طارق بھائی کا ایک سو بیس گز کا معمار میں گھر بھی تھا،انہوں نے اس کے باوجود بھی ابو کو کورٹ میں لے جانے کی دھمکی دی،ابو امی کا خرچہ پانی بھی نہیں دیتے تھے،پھر ابو کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے اور اقساط کی شکل میں میں نے انہیں رقم دینا شروع کردی۔
میری شادی کا ٹائم بھی اس وجہ سے آگے کردیا تھا کہ بھائی نے بولا کہ مجھے پیسے دو،پھر شادی کرنا،میں نے ابو کے کہنے پر پیسے دینا شروع کردئیے،پھر جب ابو نے مکان فروخت کیا تو کسی بھی قسم کا تعاون نہیں کیا،مشرق سوسائٹی میں امی ابو کو لے کر آیا اور بہت مشکل وقت گزارا،ابوکو بیماری میں بھی نہ دیکھا اور نہ کبھی ہاسپٹل لے کر گئے،بس رقم کا چیک لینے آتے تھے،میری شادی پر بھی نہیں آئے،اس پر ابو کو بہت صدمہ ہوا تھا،پھر 2017 میں ابو وفات پاگئے،اس کے بعد ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے،بھائی کے انتقال پر ملنا ہوا،ان کا انتقال 2020 میں ہوا ہے۔
جب وہ حصوں کا تقاضا کررہے تھے تو وہ بولے کہ میں نے ابو امی کو حصہ دیا ہے،بہنوں کو چھوڑو،میری امی دل کی مریض ہیں اور ابھی جون میں امی کا آپریشن ہوا ہے،ان کا خرچہ وغیرہ بھی میں ہی پورا کرتا ہوں،آپ نے مجھے جو حصوں کا بولا ہے اس طرح تو مجھے یہ مکان فروخت کرنا پڑجائے گا،میں امی اور اپنے بیوی بچوں کو کہاں لے کر جاؤں گا،جبکہ میں پاکستان میں رہتا بھی نہیں ہوں،وہ رقم جو ابو نے انہیں دی تھی ہبہ میں کیسے آئے گی؟اس پر قانونی کاروائی ہوئی ہے اور گواہ بھی موجود تھے،اس مسئلے کا جلد از جلد جواب دیجئے گا،میں نے واپس بھی جانا ہے۔
تنقیح سائل نے پوچھنے پر وضاحت کی کہ لیاقت آباد والے گھر کی چھت پر کمرہ بنا ہوا تھا،جس پر چادریں تھیں،اس نے اس کمرے کی فنیشنگ کروائی تھی اور چادریں ہٹاکر چوکیوں والی پکی چھت ڈلوادی تھی،اسی طرح باتھ روم بنوادیا تھا،لیکن یہ سب والد صاحب کے ساتھ تعاون کی نیت سے کیا تھا،اس نیت سے نہیں کہ جو رقم میں لگارہا ہوں بعد میں واپس لوں گا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شرعاً میراث کا اطلاق اس مال پر ہوتا ہے جو کسی کے مرنے کے بعد اس کے ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوتا ہے،وہ مال جو زندگی میں کسی کو دیا جائے اسے میراث کا حصہ نہیں کہا جاسکتا،اگرچہ میراث کے حصے کی نیت سے ہی کیوں نہ دیا جائے،اس لیے آپ کے مرحوم والد نے آپ کے بڑے بھائی کو اپنی زندگی میں میراث کے حصے کے نام پر جو رقم دی تھی وہ بھی ہبہ ہی کے حکم میں ہے اور اس کی وجہ سے ان کا میراث میں سے حق ختم نہیں ہوا،اگرچہ اس رقم کو وصول کرنے کے لیے آپ کے بڑے بھائی کا طرزِ عمل بالکل بھی درست نہیں تھا۔
لہذا آپ کے بڑے بھائی کا آپ کی والد کی میراث میں حصہ ہوگا،البتہ ان کے ورثہ کو چاہیے کہ چونکہ ان کے والد زندگی میں ہی اپنے حصے کے نام پر رقم وصول کرچکے ہیں،اس لیے مروت اور حسن اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ وہ لوگ بڑے بھائی کا مکمل حصہ لینے کے بجائے تھوڑا بہت لے کر بقیہ معاف کردیں۔
بقیہ لیاقت آباد والے گھر کی چھت پر کمرے اور باتھ وغیرہ کی تعمیر پر آپ نے جو رقم خرچ کی تھی وہ قرض کی نیت سے نہیں کی تھی،بلکہ والد صاحب سے تعاون کی نیت سے کی تھی،جس کا ایک واضح قرینہ یہ بھی ہے کہ آپ نے مکان بکنے کے بعد بھی والد صاحب کی زندگی میں کبھی اس رقم کا ان سے مطالبہ نہیں کیا،اس لیے اب وہ رقم آپ والد صاحب کے ترکہ میں سے وصول نہیں کرسکتے۔
حوالہ جات
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (2/ 26):
"(سئل) في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟
(الجواب) : الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية "(2/ 15):
"(سئل) في رجل تصرف في دار معلومة زمانا تصرف الملاك في أملاكهم من غير معارض له في ذلك ولا في شيء منه ثم باعها من زيد وباعها زيد من عمرو ومضى للتصرف المذكور أكثر من عشرين سنة وللرجل قريب مطلع على التصرف المذكور هو وورثته من بعده ولم يدعوا بشيء من الدار والكل في بلدة واحدة ولم يمنعهم من الدعوى مانع شرعي قام الآن ورثته يريدون الدعوى بشيء من الدار فهل تكون دعواهم بذلك غير مسموعة؟
(الجواب) : نعم لا تسمع دعواهم في ذلك وتترك الدار في يد المتصرف قطعا للأطماع الفاسدة؛ لأن السكوت كالإفصاح قطعا للتزوير والحيل والمسألة في كثير من المعتبرات كالتنوير والكنز والملتقى في مسائل شتى آخر الكتاب والبزازية الولوالجية وعبارتها رجل تصرف زمانا في أرض ورجل آخر رأى الأرض والتصرف ولم يدع ومات على ذلك لم تسمع بعد ذلك دعوى ولده فتترك في يد المتصرف؛ لأن الحال شاهد ".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
26/محرم1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |