021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جس شخص کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو،اس کی طلاق کاحکم
74026طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

سوال: طلاق کےمسئلہ میں ملک یاسرامین کےوالدکابیان

میرابیٹایاسرامین دماغی طورپرٹھیک نہیں ہے،کبھی کبھی ایسی حالت ہوتی ہےکہ اس کواپنےفائدےاورنقصان کابھی پتہ نہیں چلتا،تقریباگزشتہ دس بارہ سال سےمختلف ڈاکٹروں سےاس کاعلاج معالجہ بھی ہوتارہاہے(جس کاریکارڈموجودہے)لیکن کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا،ابھی گزشتہ چندایام قبل ایسی ہی دماغی کیفیت میں اس نےاپنی بیوی کوطلاق ثلثہ دیدی،واضح رہےکہ ڈاکٹری رپورٹوں میں اس بات کی بھی صراحت موجودہےکہ مسمی ملک یاسرامین کی دماغی کیفیت درست نہیں رہتی،جس کی بناء پرکیاگیااقدام معذوری تصورہوگا،اب پوچھنایہ ہےکہ مذکورہ صورت حال کی روشنی میں میرےبیٹےکی طلاق کاکیاحکم ہے؟قرآن وسنت کی روشنی میں مستفیدفرمائیں۔

زوجہ ملک یاسرامین کابیان

27رمضان کومیرےخاوندنےسحری کےٹائم مجھ سےپانی مانگا،ان کی ذہنی حالت  صحیح نہیں تھی،تاخیرکی وجہ سےانہوں نےطلاق کےالفاظ استعمال کیے،انہوں نےکہاکہ میں تمہیں طلاق دیتاہوں،طلاق دیتاہوں،طلاق دیتاہوں،چرندپرندکوحاضرناظرجان کرطلاق دیتاہوں،میں نےتمہیں طلاق دےدی،تم بچوں کولےکرچلی جاؤ،واضح رہےکہ وہ اس وقت ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں اورذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ دس بارہ سال سےعلاج چل رہاہے،اورڈاکٹری رپورٹ کےمطابق بھی دماغی کیفیت درست نہیں،اس سےواضح ہوتاہےکہ اس کی یہ کیفیت دس بارہ سال سےلوگوں میں معروف تھی،اورطلاق دیتےوقت بھی بیوی کےبقول اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی،لہذاصورت مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی،بیوی تاحال شوہرکےنکاح میں شمارہوگی۔

حوالہ جات
"تنویرالابصار" 3/242 :
و لایقع طلاق المولی علی امرأۃ عبدہ والمجنون والصبی  والمدھوش
"الھندیہ" 1/353 :
ولایقع طلاق الصبی وان کان یعقل والمجنون والنائم والمبرسم والمغمی علیہ والمدہوش ۔
"بدائع الصنائع"3/100 :
ومنہاان لایکون معتوھاولامدھوشا ولامبرسماولامغمی علیہ ولانائمافلایقع طلاق ھؤلآء لماقلنا۔
"فتح القدیر" 3/423 :
ویقع طلاق کل زوج اذاکان عاقلابالغاولایقع طلاق الصبی والمجنون والنائم ۔
"حاشية رد المحتار" 3 / 269:
فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته، فما دام في حال غلبة الخلل في الاقوال والافعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها، لان هذه المعرفة والارادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح ۔
 "رد المحتار " 10 /  485:
قوله والمجنون ) قال في التلويح : الجنون اختلال القوة المميزة بين الأمور الحسنة والقبيحة المدركة للعواقب ، بأن لا تظهر آثاره وتتعطل أفعالها ، إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة ، وإما لخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط أو آفة۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

26/محرم الحرام  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب