03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ترکہ میں موجود گھر کا کرایہ سب ورثہ میں تقسیم ہوگا
74029میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

 مسئلہ وراثت سے متعلق ہے،صورت مسئلہ کچھ یوں ہے کہ ماں باپ کا انتقال ہوگیا ہے اور ترکہ میں  ایک گھر موجود ہےجس کی زمین والد کی ملکیت تھی اور اوپر تعمیر ایک بیٹے نے کی ہے جو کہ تمام بہن  بھائیوں میں تقسیم ہونا ہے،جن کی کل تعداد 8 ہے، 6 بہنیں اور 2 بھائی ہیں،لیکن فی الوقت وہ گھر رینٹ پر لگا ہوا ہے اور رینٹ کی رقم  اس وقت  ایک ہی بیٹے کے پاس جارہی ہے۔

مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ ماں باپ کے انتقال کے بعد کیا گھر کے رینٹ کی مکمل رقم ایک ہی بیٹے کیلئے لینا جائز ہے؟ یا پھر رینٹ کی رقم تمام بہن بھائیوں میں وراثت کے لحاظ سے تقسیم ہونا لازمی ہے؟ (یعنی اس  رینٹ کی رقم کو دس حصے کر کے دو دو حصے دونوں بیٹوں اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دیا جائے۔)

تنقیح:سائل نے بتایا کہ یہ دوسو چالیس گز کا پلاٹ تھا جس پر کچھ کمرے بنے ہوئے تھے اور ان پر چادریں تھیں،پکی چھت نہیں تھی،یعنی رہائش کے قابل تھا،پھر ایک بیٹا لندن شفٹ ہوگیا،اس نے وہاں سے پیسے بھجوائے اور والد کی سرپرستی میں اس گھر کو آر سی سی بنایا گیا،اس بیٹے نے یہ تعمیر والدین ہی کے لیے کروائی تھی،یعنی اپنے لیے ذاتی طور پر تعمیر کی نیت نہیں تھی اوروہ اب بھی فیملی سمیت لندن میں ہے،جبکہ اس گھر کا کرایہ یہاں موجود ایک بیٹا اکیلے لے رہا ہے،یہ گھر ایک اسکول کو کرایہ پر دیا گیا ہے،جس کا کرایہ پینسٹھ ہزار روپے ہے آج کل ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ اس گھر کی تعمیر لندن میں موجود بھائی کی رقم سے ہوئی ہے اور اس نے تعمیر والدین کے لیے کروائی تھی،لہذا والدین کے انتقال کے بعد اب  یہ گھر نئی تعمیر سمیت تمام ورثہ کی مشترکہ  ملکیت میں آگیا ہے،اس لیے اس  گھر کا کرایہ بھی تمام ورثہ میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا،صرف ایک بھائی کا اکیلے اسے اپنے استعمال میں لانا  اور بقیہ ورثہ کو ان کا حصہ نہ دینا ناجائز اور حرام ہے۔

اس گھر کے موجودہ کرایہ یعنی 65000 میں سے 13000 ہر بھائی کا حصہ ہے،جبکہ6500 ہر بہن کا حصہ ہے۔

حوالہ جات

"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (3/ 26):

 "تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما".

"رد المحتار" (6/ 747):

"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

28/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب