021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد کی تقسیم اور وفات کے بعد بعض ورثا کا مطالبۂ میراث
74040ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درجِ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:

میرے والد حاجی روشن دین کا 7 اکتوبر 2015ء کو انتقال ہوا۔ ان کے بیٹوں میں غلام صفدر، ارشد محمود، محمد سعید، محمد خورشید اور رفیع الدین تھے۔ بیٹیوں میں حمیدہ بیگم، خالدہ بیگم اور نسرین اختر تھیں۔ خالدہ بیگم کا انتقال 1983ء میں ہوا تھا اور حمیدہ بیگم کا انتقال 2016ء میں ہوا۔   

ان کی کل جائیداد تین دکانیں، چھ مکانات، اور تین پلاٹ تھے۔ حاجی روشن دین صاحب نے اپنی حیات میں 1993ء میں تمام جائیداد بچوں میں تقسیم کردی تھی۔  

چنانچہ محمد خورشید کو ایک دکان دی جو صرافہ بازار حسن ابدال میں واقع ہے۔ اور ایک مکان تقریبا  6 مرلہ کا بھی محمد خورشید کو دیا۔ والد نے مجھے (محمد خورشید کو) یہ جو مکان دیا، اس کی زمینی منزل میں اس وقت والدین خود رہ رہے تھے۔ اوپر ہم رہ رہے تھے، لیکن اوپر چھوٹی سی جگہ تھی، اس لیے پھر ہم دوسرے مکان میں منتقل ہوگئے، کچھ سامان وہاں رکھا رہا جو اب بھی رکھا ہوا ہے اور چابی میرے پاس ہے۔ یہ اوپر نیچے پورا ایک ہی مکان ہے، والد صاحب نے مجھے یہ مکان دیتے ہوئے کہا کہ یہ گھر آپ کا ہے، البتہ جب تک میں اور میری اہلیہ یا ہم میں سے کوئی ایک زندہ ہو، اس وقت تک ہم اس میں رہیں گے، اس کے بعد آپ قبضہ لے لینا۔ چنانچہ اس میں والد اور والدہ رہتے رہیں، والد صاحب اپنی وفات تک اسی گھر میں رہے، اب والد صاحب کی وفات کے بعد والدہ اس میں رہ رہی ہیں۔

سائل نے فون پر یہ بھی بتایا کہ والد صاحب نے تقسیم کے بعد ہر ایک کے لیے اقرار نامہ بھی بنوایا جس میں والد اور تمام بھائیوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ فلاں فلاں جائیداد ہم نے فلاں بھائی کو دیدی ہے۔ سائل نے اپنا اقرار نامہ بھیجا ہے جس میں ان کو دئیے گئے دکان، پلاٹ اور اس مکان کا ذکر ہے، اس میں اس مکان سے متعلق لکھا ہے کہ: "مکان کا قبضہ مسمی روشن دین ولد کالا خان کے پاس رہے گا، اور یہ اپنی مرضی سے تا حیات رہائش پذیر ہو سکتے ہیں۔" 

غلام صفدر کو ایک دکان واقع مین بازار حسن ابدال دی۔  ارشد محمود، محمد سعید اور رفیع الدین تینوں کو ایک بڑی منڈی دی، والد صاحب نے وہ منڈی ان تینوں میں برابر برابر تقسیم کی اور ہر ایک کا حصہ الگ الگ کر کے اس کے قبضہ میں دیدیا۔  

مکانات میں سے رفیع الدین کو 6 مرلہ کا دو منزلہ مکان دیا۔ محمد سعید کو بھی 6 مرلہ کا دو منزلہ مکان دیا۔ غلام صفدر کو 10 مرلہ کا مکان دیا۔ ارشد محمود کو 9 مرلہ کا مکان دیا۔

پلاٹوں میں سے 7 مرلہ کا ایک پلاٹ ارشد محمود کو دیا۔ 7 مرلہ کا ایک پلاٹ محمد سعید کو دیا۔  26 مرلہ کا ایک پلاٹ محمد خورشید اور رفیع الدین کو دیا جس میں والد صاحب نے خود ہر ایک کو اس کا حصہ 13، 13 مرلے الگ الگ کر کے دیدیا۔

ایک بیٹی نسرین اختر کو ایک عدد مکان تقریبا 3 مرلہ ڈبل سٹوری دیا۔ دوسری بیٹی حمیدہ بیگم کو 1996ء میں نقد 50000 روپے دئیے۔  

     والد نے جس بیٹے یا بیٹی کو جو کچھ دیا، اسے اس کا قبضہ بھی دیا۔  2019 میں موجودہ جائیداد کی ڈگری عدالت سے سب نے اپنے نام کی حاصل کی۔ رجسٹری وغیرہ نہیں ہوئی۔ عدلت سے ڈگری اس بات کی لی کہ جو جو جائیداد جس جس بھائی کو ملی تھی اور اس کے پاس تھی اس میں دوسروں نے اپنا حصہ چھوڑ دیا، Withdraw  کردیا۔  

جائیداد کی تقسیم کے 22 سال بعد تک جب والد صاحب فوت ہوئے، کسی نے کبھی کوئی مطالبہ یا اعتراض نہیں کیا۔ اب تقریبا والد کی وفات کے ساڑھے چھ سال بعد حمیدہ بیگم کے بچوں، خالدہ بیگم کے بیٹے اور نسرین اختر نے دوبارہ جائیداد میں اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کا مطالبہ جائز ہے؟ اور اب دوبارہ ساری جائیداد تقسیم ہوگی؟ جو جائیداد فروخت ہوچکی ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ سائل نے فون پر بتایا کہ والد صاحب کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال ان کی زندگی میں ہوچکا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ والد اگر اپنی جائیداد زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو یہ شرعًا ہبہ ہوتا ہے، میراث نہیں۔ اس میں اصل اور بہتر تو یہ ہے کہ تمام اولاد، لڑکوں اور لڑکیوں سب کو برابر برابر

حصہ دے، البتہ اگر میراث کے مطابق یعنی لڑکے کو لڑکی کا دگنا حصہ دے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ لیکن لڑکیوں کو بالکل محروم کرنا یا بہت معمولی حصہ دینا ناجائز ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوں گے۔ البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کی خدمت، دینداری یا غربت کی وجہ سے کچھ زیادہ حصہ دیدیں تو اس کی گنجائش ہے۔ نیز اگر والد بغیرکسی وجہ کےکسی کو زیادہ حصہ دے اور باقاعدہ قبضہ بھی دے تو یہ ہبہ مکمل ہوجائے گا، اور وہ موہوب لہ اس حصے کا مالک بن جائےگا،اگرچہ ایسا کرنا جائز نہیں۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے:

(الف)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد صاحب نے بیٹوں کو تو تقریبا برابر برابر حصہ دیا ہے، لیکن دو بیٹیاں جو تقسیم کے وقت زندہ تھیں، حمیدہ بیگم اور نسرین اختر، ان کو اپنے بیٹوں کے آدھے سے بھی کم حصہ دیا ہے جو کہ جائز نہیں تھا، اس کی وجہ سے والد صاحب گناہ گار ہوں گے۔ البتہ چونکہ والد صاحب نے  محمد خورشید کے مکان ( اس کا حکم آگے آرہا ہے) کے علاوہ جس بیٹے یا بیٹی کو جو کچھ دیا، اسے اس کا حصہ الگ کر کے قبضہ بھی دیدیا تھا؛ اس لیے اب حمیدہ بیگم اور نسرین اختر پوری جائیداد کی دوبارہ تقسیم کا مطالبہ نہیں کرسکتیں۔ خالدہ بیگم چونکہ جائیداد کی تقسیم کے وقت زندہ ہی نہیں تھی، اس لیے اس کو حصہ نہ دینے کی وجہ سے آپ کے والد صاحب گناہ گار نہیں ہوں گے، نہ ہی اس کے بیٹے کو اب مطالبے کا کوئی حق ہے۔ جس بیٹے یا بیٹی نے اپنی جو جائیداد بیچی ہے تو وہ معاملات درست ہوئے ہیں؛ کیونکہ ہبہ کے بعد قبضہ ملنے کی وجہ سے ہر ایک کو اپنے اپنے حصے میں ہر جائز تصرف کا حق حاصل تھا۔

البتہ اگر آپ سب بھائی اپنی ان دو بہنوں حمیدہ بیگم (اس کے انتقال کر جانے کی وجہ سے اس کی نیابت میں اس کے ورثا) اور نسرین اختر کو تھوڑی بہت رقم یا کوئی اور چیز دیدیں تو یہ آپ کے والد صاحب سے ہونے والی کوتاہی کی تلافی ہوگی، اور ان شاء اللہ آخرت میں ان کی نجات کا ذریعہ بنے گا۔ اسی طرح اگر خالدہ بیگم کے بیٹے کو بھی کچھ دیدیں تو آپ سب کو صلہ رحمی کا ثواب ملے گا۔

(ب)۔۔۔ جہاں تک محمد خورشید یعنی آپ کو دئیے گئے مکان کا تعلق ہے تو چونکہ تقسیم کے وقت اس میں والد صاحب خود رہائش پذیر تھے، اور آپ کو نہ تقسیم کے وقت قبضہ دیا، نہ تقسیم کے بعد۔ بلکہ یہ کہا کہ جب تک میں اور میری اہلیہ زندہ ہیں، ہم اس میں رہیں گے، اس کے بعد آپ قبضہ لے لینا۔ اقرار نامہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ "مکان کا قبضہ مسمی روشن دین ولد کالا خان کے پاس رہے گا، اور یہ اپنی مرضی سے

تا حیات رہائش پذیر ہو سکتے ہیں۔ "

اور شرعا قبضہ کے بغیر ہبہ مکمل نہیں ہوتا؛ اس لیے یہ مکان آپ کی ملکیت میں نہیں آیا تھا، بلکہ اس پر والد صاحب کی ملکیت بدستور قائم تھی۔ والد صاحب کے ساتھ کچھ عرصہ اس مکان کے اوپر صرف رہائش کی وجہ سے بھی شرعا ہبہ کے لیے مطلوب قبضہ ثابت نہیں ہوا۔  

لہٰذا والد صاحب کے انتقال کے بعد یہ مکان ان کی میراث ہے، جو ان کے تمام ورثا میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ تقسیمِ میراث میں والدہ کو آٹھواں حصہ ملے گا، اس کے بعد جو کچھ بچے گا، اس کے بارہ (12) حصے کیے جائیں گے جس میں پانچ بھائیوں میں سے ہر بھائی کو دو، دو حصے اور والد صاحب کی وفات کے وقت دو زندہ بہنوں میں سے ہر بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ چونکہ حمیدہ بیگم والد صاحب کے بعد فوت ہوئی ہے، اس لیے اس کا حصہ اس کے ورثا کو ملے گا۔ خالدہ بیگم کے ورثا کو کوئی حصہ نہیں ملے گا؛ کیونکہ اس کا انتقال والد صاحب سے پہلے ہو چکا تھا۔

آپ سب بھائیوں نے 2019ء میں عدالت سے اپنی اپنی جائیداد کی جو ڈگریاں لی ہیں، اس سے بھی اس مکان میں دیگر بھائیوں کا حصہ ختم نہیں ہوا؛ کیونکہ وہ ڈگریاں سب بھائیوں نے والد صاحب کی تقسیم کی بنیاد پر لی ہیں، اور اس تقسیم کے نتیجے میں اس مکان کا ہبہ مکمل نہیں ہوا تھا۔ تاہم چونکہ آپ کے سب بھائیوں کو والد صاحب اچھا خاصا حصہ دے چکے ہیں، اس لیے اگر وہ اپنی دلی رضامندی سے والد صاحب کی منشا کو سامنے رکھتے ہوئے اس مکان میں اپنا اپنا حصہ کسی معمولی عوض کے بدلے آپ کو بیچ دیں تو پھر آپ ان کے حصوں کے بھی مالک ہوجائیں گے۔ لیکن بہنوں اور والدہ کو ان کا پورا پورا حصہ دینا بہر حال لازم ہے۔ البتہ اگر بہنیں اور والدہ بھی اپنا حصہ آپ کو بیچنا چاہیں تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ان کے حصوں کی جو قیمت بنتی ہو، وہ انہیں ادا کر کے آپ ان کی رضامندی سے ان کا حصہ بھی خرید سکتے ہیں۔  

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ }[النساء: 11].
{لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 12].
مشكاة المصابيح (2 / 183):
                     وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني نحلت ابني
                             هذا  غلاما فقال : " أكل ولدك نحلت مثله ؟ " قال  لا قال : "فأرجعه". وفي رواية : أنه قال :
"أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء ؟ " قال : بلى قال : " فلا إذن " .  وفي رواية : أنه قال : أعطاني
أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال : " أعطيت سائر ولدك مثل هذا ؟ " قال : لا قال : " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم " . قال : فرجع فرد عطيته . وفي رواية : أنه قال : " لا أشهد على جور ".
رد المحتار (4/ 444):
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: "اتقوا الله واعدلوا في أولادكم"، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية، فيسوي بين الذكر والأنثى؛ لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة.
وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض، روى عن أبي حنيفة: لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين، وإن كانوا سواء يكره. وروى المعلى عن أبي يوسف: أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار، وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى. وقال محمد: يعطى للذكر ضعف الأنثى.
وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف: وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد
أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم، وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.
                        تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 110):
( سئل ) فيما إذا كان لكل من زيد وعمرو عقار جار في ملكه بمفرده فتوافقا على أن ما يحصل من ريع العقارين بينهما نصفين واستمرا على ذلك تسع سنوات والحال أن ريع عقار زيد أكثر ويريد زيد مطالبة عمرو بالقدر الزائد الذي دفعه لعمرو بناء على أنه واجب عليه بسبب الشركة المزبورة فهل يسوغ لزيد ذلك ؟
 ( الجواب ) : الشركة المزبورة غير معتبرة فحيث كان ريع عقار زيد أكثر تبين أن ما دفعه لعمرو من ذلك بناء على ظن أنه واجب عليه، ومن دفع شيئا ليس بواجب عليه فله استرداده، إلا إذا دفعه على وجه الهبة واستهلكه القابض كما في شرح النظم الوهباني وغيره من المعتبرات.
شرح المجلة للعلامة خالد الأتاسی (4/14):
شرح المادة1073: ….. من دفع شيئا ليس بواجب عليه فله استرداده، إلا إذا دفعه على وجه الهبة واستهلكه القابض كما في شرح النظم الوهباني وغيره من المعتبرات .
البحر الرائق (5/ 243):
 وصرح في جامع الفصولين من الفصل الثامن والعشرين لو قال وارث تركت حقي لا يبطل حقه إذ الملك لا يبطل بالترك.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27/محرم الحرام /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب