021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اگر ایک وارث ترکہ کی مشترکہ دکان استعمال کرے تو کرایہ کا حکم
74025اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

جب میرے والدہ اور والدہ حیات تھے تو انہوں نے مجھے کاروبار کرنے کے لیے ایک دکان دی تھی۔ مکان جس میں یہ دکان ہے میری والدہ کے نام ہے۔ میرے والد کو 2000ء میں شہید کیا گیا، اور میری والدہ 2007ء میں فوت ہوئی۔ اس کے بعد یہ مکان ورثا میں تقسیم ہونا تھا، میرے بار بار کہنے کے باوجود میرے بہن بھائیوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ چونکہ میرا کاروبار اسی مکان کی دکان میں تھا اور میں چاہتا تھا کہ یہ ورثا میں تقسیم ہوجائے؛ تاکہ میں اپنا کاروبار کسی اور جگہ منتقل کردوں۔ اس مکان کا رقبہ 66.66 گز ہے۔ اس کا اسکوائر فٹ میں رقبہ 600 اسکوائر فٹ ہے، اور میری دکان 120 اسکوائر فٹ ہے۔ ہم تین بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ اگر زمین کا حصہ دیکھا جائے تو تقریبا 120 اسکوائر فٹ ہی بنتا ہے جس پر میں کاروبار کرتا تھا۔ 2015ء میں میرے حالات خراب ہوئے اور بچوں کی فیس وغیرہ کا خرچہ بڑھ گیا تو میں نے دکان کرایہ پر دیدی اور نوکری کرنے لگا۔ اس دوران میں اپنے بہن بھائیوں سے کہتا رہا کہ اس مکان کو تقسیم کردو، تاکہ یہ ہماری زندگی میں ہوجائے، یہ جو دکان ہے، اگر زمین کا حصہ کیا جائے تو میرا حصہ 120 اسکوائر فٹ بنتا ہے۔

مجھے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اگر یہ مکان بکتا ہے تو والدہ کے انتقال کے بعد جتنا عرصہ یہ دکان میرے پاس رہی ہے تو مجھے اس کا کرایہ ادا کرنا ہوگا یا نہیں؟ جبکہ میرے پاس موجود دکان کا حصہ اتنا ہی ہے جتنا وراثت میں میرا حصہ بنتا ہے۔ میرے بہن بھائیوں نے کبھی مجھے یہ دکان خالی کرنے کے لیے نہیں کہا۔

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ اس دکان کا کرایہ اب تک میرے پاس آتا ہے۔ باقی مکان خالی ہے۔ ایک دکان کا کرایہ ایک اور بھائی کے پاس جاتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میراث کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کو جلد از جلد ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔

بغیر عذر ِ معتبر کے میراث کی تقسیم میں تاخیر درست نہیں، اس سے بعض ورثا کی حق تلفی ہوتی ہے، اور غلط فہمیاں اور رنجشیں پیدا ہوجاتی ہیں۔لہذا آپ کے والدین کے انتقال کے اتنے عرصے بعد تک میراث  تقسیم نہ ہونادرست نہیں ۔ اب آپ سب بہن بھائیوں کو چاہیے کہ جلد از جلد اس مکان کی تقسیم کرکے تمام ورثا کو ان کے حصے دیدیں۔

جہاں تک کرایہ کا تعلق ہے تو جب تک آپ نے یہ دکان کسی اور کو کرایہ پر نہیں دی تھی، بلکہ خود اس میں کاروبار کر رہے تھے اس وقت تک کا کرایہ آپ پر لازم نہیں ہوگا۔ البتہ جب 2015 میں آپ نے دکان کسی اور کو کرایہ پر دیدی تو اس کے بعد سے آپ کو جو کرایہ ملتا رہا، اس میں تمام ورثا کا حق تھا۔ لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ اب تک جتنا کرایہ حاصل ہوا ہے، اس پورے میں ہر وارث کا حصہ اس کو ادا کریں۔ اسی طرح آئندہ جو کرایہ آئے گا، اسے تمام ورثا پر ان کے میراث کے حصوں کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہوگا۔ مذکورہ دکان کا رقبہ اگرچہ آپ کے حصۂ میراث جتنا ہے، لیکن چونکہ میراث کی تقسیم ابھی نہیں ہوئی، اس لیے دکانوں سمیت یہ پورا مکان تمام ورثا میں مشاع طور پر مشترک ہے، اس کے ہر ہر حصے میں ہر ایک وارث کا حصہ ہے؛ اس لیے کرایہ بھی سب کو ملے گا۔ البتہ اگر میراث کی باقاعدہ تقسیم ہوجائے اور اس میں یہ دکان آپ کو ملے تو پھر اس کا کرایہ صرف آپ کا ہوگا۔

 اگر کسی دوسرے وارث نے میراث کی کوئی اور چیز کرایہ پر دی ہو تو اس کا کرایہ بھی تمام ورثا پر ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہوگا۔  

حوالہ جات
المجلة (ص: 111):
مادة 597: لا يلزم ضمان المنفعة في مال استعمل بتأويل ملك ولو كان معدا للاستغلال، مثلا لو تصرف مدة أحد الشركاء في المال المشترك  بدون إذن شريكه مستقلا فليس للشريك الآخر اخذ أجرة  حصته؛ لأنه استعمله على أنه ملكه.
شرح المجلة للعلامة الأتاسیؒ (2/701):
شرح المادة 597: لأن الدار المشترکة فی حق السکنی و ما کان من توابعها تجعل کالمملوکة لکل واحد من الشریکین علی سبیل الکمال؛ إذ لو لم تجعل کذلك منع کل واحد من الدخول والقعود و وضع الأمتعة، فتتعطل علیه منافع ملکه، وإنه لایجوز، وإذا جعلنا ها هکذا صار الحاضر ساکنا فی ملك نفسه، فکیف یجب علیه الأجر؟ (حموی عن العمادیة).
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 588):
شرح المادة 597: مسائل تتفرع عن ذلك: أولًا: مثلًا لو تصرف أحد الشركاء تغلبًا في المال المشترك كالدار والحانوت مدةً بدون إذن شريكه مستقلًا واستعمله بنفسه، فليس للشريك الآخر أخذ أجرة حصته؛ لأنه استعمله على أنه ملكه، كما أنه ليس له أن يطالب بسكنى الدار وحده بقدر ما سكنها شريكه، انظر المادة ( 1083 )، حتى أن الساكن إذا دفع إلى شريكه أجرة حصته يزعم أنها تلزمه فله استردادها بعد ذلك، انظر المادة ( 97 ) .
ويفهم من هذه المادة أن لأحد الشريكين أن يسكن المال المشترك سواء أكان شريكه حاضرا  أو غائبًا؛ إذ يتعذر عليه الاستئذان في كل مرة فكان له أن يسكن في حال غيبته . ثانيا : إذا تسبب أحد الشريكين بتعطيل المال المشترك ، فليس للشريك الثاني أجرة . ثالثا : إذا آجر أحد الشریکین حصته من شریکه سنة و سکنها المستأجر سنتین فلا تلزم أجرة للسنة الثانیة.
وحكم الأجنبي الذي يخلف الشريك فهو كالشريك أيضًا.
ويستفاد من المثال أن ذلك خاص باستعمال الشريك بالذات، ولا دخل لإيجاره من آخر؛ لأن الشريك إذا لم يستعمل المال المشترك مستقلًا بنفسه، وآجره كله من آخر وأخذ أجرته لزمه رد أجرة شريكه إليه . مثلًا لو آجر أحد الشركاء الحمام المشترك بين ثلاثة، ولكل منهم ثلثه، من آخر وأخذ أجرته لزمه أن يعطي لشريكيه ثلثي الأجرة ،وسنفصل هذه المسألة، وتوضح في المادة ( 1077 )، لكن إيجار أحد الشركاء المال المشترك على هذا الوجه أو إعارته غير جائزة ديانة؛ إذ التصرف في ملك الغير بلا إذن حرام ، ولا يمنع قضاء؛ إذ الإنسان لا يمنع من التصرف فيما بيده إذا لم ينازعه فيه أحد ( التنقيح، رد المحتار،  علي أفندي ) .

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27/محرم الحرام /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب