021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پگڑی کے مکانات کی تعمیر نو کرنے کے بعد معاملہ ختم کرنے کا حکم
74022اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

سال 2002ء میں ہم نے اپنے محلے کی ایک مسجد کے زیر ِانتظام چلنے والے ایک دینی تعلیم کے مدرسے کے لیے تین عدد مکانات اُن کے مالکان سے پگڑی کی بنیاد پر خریدے تھے جن میں سے دو مکان دو دو کمروں کے تھے اور ایک مکان کا صرف ایک کمرہ تھا۔

  مسجد کی انتظامیہ نے سال 2002ء میں مالکان کو پگڑی کے طور پر اِن گھروں کی قیمت 7  لاکھ 25 ہزار روپے ادا کی تھی۔یہ گھر پرانے اور رہائشی طرز کے تھے، اِس لیے بنات کے مدرسے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی غرض سے مسجد انتظامیہ نے اِن کے اندر بڑا تعمیری کام کرایاجس پر اُس زمانےمیں 5  لاکھ روپے مزید خرچ ہوئے۔ اِس طرح یہ جگہ پگڑی پر خریدنے اورتعمیراتی کام کے بعد مسجد انتظامیہ کو کل 12 لاکھ 25 ہزار میں پڑی۔اِس ساری رقم کا بندوبست مسجد انتظامیہ نے نمازیوں اور اہل محلہ کے تعاون سے کیا تھا ۔اِس رواں سال تک مالکان کو اِن گھروں کا کرایہ بھی پابندی سے دیا جاتا رہا اور اِن گھروں میں طالبات کی دینی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

 اب اِس سال 2021ء میں مسجد کی انتظامیہ نے اپنے مدرسے کے لیے ایک نئی جگہ کا انتظام کر کے مدرسے کو وہاں منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ چنانچہ کم وبیش ۱۹ سال بعد مذکورہ بالا تینوں گھروں کی ضرورت ختم ہوجانے کے باعث اِنہیں مالکان کو واپس کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایک قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اِس وقت اِن پگڑی کے مکانات کی قیمت 27 سے 28  لاکھ روپے ہے، اور عرفِ عام میں اِس طرح کے گھر کی واپسی کے موقع پر لین دین کا معاملہ وقتِ حاضر کی قیمت اور ویلیو کے حساب سے اِس طرح ہوتا ہےکہ 50 فی صد رقم مالک مکان کو اور 50 فی صد گھر چھوڑنے والے کرایہ دار کو دی جاتی ہے۔  

اِس سارے پس منظر کی تفصیل بیان کرنے کے بعد اب اصل سوالات حسبِ ذیل ہیں:

1۔۔۔  کیا مسجد انتظامیہ مالکان سے اِن گھروں کی موجودہ قیمت ( پگڑی ویلیو) کے حساب سے شرعاً ۵۰ فی صد رقم کی ادئیگی کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ عرف عام میں لین دین کا یہ معاملہ حالیہ قیمت کے حساب سے طے کیا جاتا ہے۔ خود ہم مسجد انتظامیہ کے افراد بھی پگڑی کے اپنے ذاتی مکانات کی لین دین کا معاملہ قدیم ویلیو پر کبھی نہیں کرتے ، بلکہ عرف عام کے مطابق وقتِ حاضر کی ویلیو ہی کے مطابق 50اور 50 فی صد کی صورت میں کرتے ہیں۔ یہاں ایک قابلِ توجہ بات یہ بھی ہے کہ اِس اِصول کی رعایت کی صورت میں مسجد انتظامیہ کو کم وبیش وہی رقم (12  لاکھ 25 ہزار)بھی واپس حاصل ہوجاتی ہے جو سال 2002ء  میں پگڑی اور اِنہی گھروں کی تعمیرِ نو کے کام میں اُس نے خرچ کی تھی۔اور مالک کو بھی موجودہ قیمت کے لحاظ سے اِتنی ہی رقم موصول ہوگی۔

2۔۔۔ کیا مسجد کی انتظامیہ مالکان کو یہ گھر واپس کرتے ہوئے سال 2002ء میں دی گئی پگڑی کی رقم جو کہ 19  سال قبل کی ویلیو کے مطابق سوا سات لاکھ روپے تھی ، شرعاً وہی رقم واپس لینے کی پابند ہوگی؟

3۔۔۔  سال 2002ء میں اِن گھروں کی خریداری کے بعد جو ۵ لاکھ روپے اِن کی تعمیر نو پر لگائے گئے تھے، اُس رقم کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟ کیا مسجد انتظامیہ شرعاً اُس رقم کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ پگڑی کا معاملہ شرعا ناجائز ہے جس سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔ پگڑی کی رقم در حقیقت رشوت ہوتی ہے جس کا لینا دینا حرام ہے۔ البتہ اس کی متبادل جائز صورت ممکن ہے جو بوقتِ ضرورت معلوم کی جاسکتی ہے۔ صورتِ مسئولہ میں پگڑی کا جو ناجائز معاملہ ہوچکا ہے، اب اس کا حکم یہ ہے کہ مسجد انتظامیہ اس پر استغفار کرے اور یہ معاملہ ختم کرے۔ جہاں تک آپ کے سوالات کا تعلق ہے تو ان کے جوابات درجِ ذیل ہے:

(1)۔۔۔ پگڑی کے مکانات واپس کرتے وقت رائج عرف کے مطابق کرایہ دار کا 50 فیصد رقم لینا کسی شرعی اصول پر منطبق نہیں ہوتا؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں مسجد انتظامیہ کو مکانات کی موجودہ قیمت کے 50 فیصد کے مطالبے کا حق نہیں۔  

(2)۔۔۔ مسجد انتظامیہ نے پگڑی کی جو 7 لاکھ 25 ہزار روپے مالکان کو دئیے تھے، وہ چونکہ رشوت تھی، اور رشوت دینے والا رشوت کی رقم واپس لینے کا حق دار ہوتا ہے، اس لیے مسجد انتظامیہ مالکان سے اتنی ہی رقم واپس لے سکتی ہے جتنی رقم انہیں دی تھی، ویلیو کم ہونے کی وجہ سے اضافی رقم لینا جائز نہیں۔ پھر چونکہ مالکان کو یہ رقم مدرسے کے چندہ سے دی گئی تھی، اس لیے رقم واپس ملنے پر اسے مدرسہ ہی میں استعمال کیا جائے گا۔

(3)۔۔۔ مسجد انتظامیہ نے مدرسے کے چندے کے پانچ (5) لاکھ روپے سے ان مکانات کی جو تعمیرِ نو کی تھی وہ تعمیر مدرسہ کی ملکیت ہے۔ اب انتظامیہ کو مالکان سے اس رقم کے مطالبہ کا حق نہیں، البتہ ان کی رضامندی سے یہ تعمیر انہیں بیچ کر اس کی قیمت وصول کرنا جائز ہے۔ البتہ اگر وہ تعمیر خریدنے پر راضی نہ ہوں تو انہیں مجبور نہیں کیا جاسکتا، ایسی صورت میں انتظامیہ تعمیرِ نو توڑ کر ملبہ لینے یا تعمیر چھوڑ کر مالکان سے ملبہ کی قیمت کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ لیکن اس میں مدرسے کا نقصان ہے، اس لیے مالکان کو ایک مناسب قیمت پر راضی کر کے تعمیر انہیں بیچ دیں اور وہ رقم مدرسہ کے فنڈ میں جمع کرادیں، کیونکہ یہ تعمیر مدرسے کے چندے سے ہوئی تھی۔

حوالہ جات
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (1/109-103):
   الخلو عبارة عن حق القرار في دار أو حانوت، فربما يؤجر صاحب البناء بناءه لمدة طويلة،
فيأخذ من المستأجر مبلغا مقطوعا عند عقد الإجارة زيادة على أجرته الشهرية أو السنوية، وبدفع هذا المبلغ يستحق المستأجر أن يبقى على إجارته مدة طويلة. ثم ربما ينقل المستأجر حقه هذا إلى غيره، فيأخذ منه مبلغا يستحق به عقد الإجارة مع صاحب البناء، وإذا أراد المالك استرداد بنائه من المستأجر لزمه أن يؤدي إليه مبلغا يتراضى عليه الطرفان.  
وإن هذه المبالغ كلها تسمى "خلو" أو "جلسة" في شتى البلاد العربية، و"بكرى" و"سلامي" في ديارنا. وأصل الحكم في هذا الخلو عدم الجواز، لكونه رشوة أو عوضا عن حق مجرد……… تحقق مما ذکر نا أن بدل الخلو المتعارف الذی یأخذه المؤجر من مستأجره لا یجوز، و لا ینطبق هذا المبلغ المأخوذ علی قاعدة من القواعد الشرعیة، و لیس ذلك إلا رشوة حراما. نعم! یمکن تعدیل النظام الرائج للخلو إلی ما یلی……… الخ
فقه البيوع (1/274-271):
المعروف فی کثیر من البلادالیوم أن المؤجرحينمايؤجرأرضه أوبيته،فإنه يعطيه حق البقاءعلي هذه الإجارة إلی الأبد(وقد يسمي حق القرار) بمبلغ مقطوع يأخذه عند عقد الاجارة،ثم يطالبه بأجرة دوريةمتفق عليهاويعتبر المستأجربعد ذلك مالكالحق القرار، فلو أراد المؤجر أن یسترد منه الأرض المؤجرة فإنه لا یحق له ذلك إلا بعوض مقطوع یتراضی علیه الفریقان فی ذلك الحین. ………فهناك أربع مسائل:
المسألة الأولی: هل یجوز للمؤجر أن یطالب المستأجر بمبلغ مقطوع سوی الأجرة مقابل منحه حق القرار أو حق البقاء علی الإجارة إلی الأبد؟
المسألة الثانیة: هل یجوز للمستأجر أن یطالب المالك بعوض إن أراد المالك استرداد الأرض أو البیت منه؟………. الخ
أما المسألة الأولی فالظاهر من کلام الفقهاء أصحاب الکتب المعروفة أن ذلك لا یجوز وعلي هذافإن بدل الخلوّ الذي يأخذه المؤجرفي أول العقدلاينطبق علي مثل حق القرارالذي جّوزه المتأخرون في الأراضي الوقفية و السلطانية، و من المقرر أن العاقد لايجوز له أن يطالب العاقد الآخر عوضاعن مجرد دخوله في العقد علاوةًعلي مايستحقه بالعقد؛فإنه رشوة ……. الخ
و أما المسألة الثانیة فالمعاصرون الذین جوزوا بدل الخلو أجازوا للمستأجر أن یطالب المالك بعوض إن أراد إخلاء الأرض منه. و هذا العوض لا یجب أن یکون مساویا لما دفعه المستأجر إلی المؤجر فی بدایة العقد بدلا عن الخلو، بل یجوز للفریقین أن یتفقا علی أی مبلغ بتراضیهما. أما علی القول بعدم جواز بدل الخلو، و هو الراجح، فإن لم تکن مدة الإجارة محددة فلا یجوز للمستأجر أن یطالب المالك بعوض عن إخلاء الأرض. نعم! یجوز له أن یسترد منه ما دفعه کبدل الخلو عند بدایة العقد؛ فإنه رشوة یجب ردها إلی الدافع.
 الدر المختار (6/ 423):
                 الرشوة لا تملك بالقبض .  
رد المحتار (6/ 423):
 قوله ( لا تملك بالقبض ) فله الرجوع بها، وذكر في المجتبى بعد هذا: ولو دفع الرشوة بغير طلب المرتشي فليس له أن يرجع قضاء، ويجب على المرتشي ردها.
تنقيح الفتاوى الحامدية (6/ 276):
وأما ما في القنية ونقله المؤلف عن الحاوي الزاهدي بقوله: يثبت حق القرار في ثلاثين سنة في الأرض السلطانية والملك وفي الوقف في ثلاث سنين ولو باع حق قراره فيها جاز وفي الهبة اختلاف ولو تركها بالاختيار تسقط قدميته حاوي الزاهدي .ا هـ .
فالمراد به الأعيان المتقومة لا مجرد الأمر المعنوي لما علمت من عدم صحة بيعه، ويدل على ذلك قوله في البزازية ولا شفعة في الكردار أي البناء ويسمى بخوارزم حق القرار ؛ لأنه نقلي .ا هـ .
وكذا ما نقله المؤلف عن النهاية بقوله إنما تجب الشفعة في الأراضي التي تملك رقابها حتى إن الأراضي التي حازها الإمام لبيت المال ودفعها إلى الناس مزارعة فصار لهم فيها قرار البناء والأشجار فلو بيعت هذه الأراضي فبيعها باطل وبيع الكردار إذا كان معلوما يجوز ولكن لا شفعة فيه من النهاية شرح الهداية في باب ما تجب فيه الشفعة وما لا تجب .ا هـ .
فالمراد به أيضا ما ذكرنا من الأعيان الموجودة فقوله إذا كان معلوما احتراز عما إذا جهله المشتري وهذا الكردار يوجد في زماننا أيضا في الحوانيت، ويسمى جدكا، وهو ما يبنيه المستأجر في الحانوت من ماله لنفسه وما يضعه فيها من آلات الصناعة ونحو ذلك من الأعيان القائمة فيها بإذن المتولين له بذلك أو لمن باعه ذلك، ويثبت له بذلك حق القرار ما دام
يدفع أجرة مثل الحانوت خالية عن جدكه وقد ذكر في الظهيرية في أواخر كتاب الدعاوى والبينات أنواع الكردارات من كردار الحمام وكردار العطار وكردار الكرم وكردار كذا وكذا وبيان كيفية كتابتها في صك البيع فراجعها وقد يخص الجدك بما يثبت في الحانوت على وجه القرار مما لا ينقل ولا يحول كالبناء والأغلاق ونحو ذلك، وهذا يسميه الفقهاء سكنى، قال في التجنيس: رجل اشترى من رجل سكنى له في حانوت رجل آخر مركبا بمال معلوم وقد أخبره البائع بأن أجرة هذا الحانوت ستة، ثم ظهر بعد ذلك أن أجرته عشرة ليس له أن يرده على البائع ؛ لأن العيب في غيرالمشري، ولصاحب الحانوت أن يكلف المشتري رفع السكنى ، وإن كان على المشتري ضرر ؛ لأنه شغل ملكه . ا هـ . وفي الفصل السادس عشر من جامع الفصولين عن الذخيرة: شرى سكنى في دكان وقف فقال المتولي ما أذنت له بالسكنى فأمره بالرفع، فلو شراه بشرط القرار يرجع على بائعه، وإلا فلا يرجع عليه بثمنه ولا بنقصانه . ا هـ .
وهو غير الخلو الذي هو عبارة عن القدمية ووضع اليد خلافا لمن زعم أنه هو واستدل بذلك على جواز بيع الخلو، فإنه استدلال فاسد لما علمت من أن السكنى أعيان قائمة مملوكة كما أوضحه العلامة الشرنبلالي في رسالة خاصة، لكن إذا كان هذا الجدك المسمى بالسكنى قائما في أرض وقف فهو من قبيل مسألة البناء أو الغرس في الأرض المحتكرة لصاحبه الاستبقاء بأجرة مثل الأرض حيث لا ضرر على الوقف ، وإن أبى الناظر نظرا للجانبين على ما مشى عليه في متن التنوير وأفتى به المؤلف تبعا للخير الرملي وقدمنا الكلام عليه في كتاب الإجارات، ولا ينافيه ما في التجنيس من أن لصاحب الحانوت أن يكلفه رفعه؛ لأن ذاك في الحانوت الملك بقرينة ما في الفصولين. والفرق أن الملك قد يمتنع صاحبه عن إيجاره ويريد أن يسكنه بنفسه أو يبيعه أو يعطله بخلاف الموقوف المعد للإيجار ، فإنه ليس للناظر إلا أن يؤجره فإيجاره من ذي اليد بأجرة مثله أولى من إيجاره من أجنبي لما فيه من النظر للوقف ولذي اليد.
الهداية (3/ 235):
ويجوز أن يستأجر الساحة ليبني فيها أو ليغرس فيها نخلا أو شجرا لأنها منفعة تقصد بالأراضي ثم إذا انقضت مدة الإجارة لزمه أن يقلع البناء والغرس ويسلمها إليه فارغة…….  قال: إلا أن يختار صاحب الأرض أن يغرم له قيمة ذلك مقلوعا ويتملكه فله ذلك وهذا برضا صاحب الغرس والشجر، إلا أن تنقص الأرض بقلعهما فحينئذ يتملكهما بغير رضاه.
المجلة (ص: 88):
مادة 462: فساد الإجارة ينشأ بعضه عن كون البدل مجهولا وبعضه عن فقدان شرائط الصحة الأخر، ففي الصورة الأولى يلزم أجر المثل بالغا ما بلغ وفي الصورة الثانية يلزم أجر المثل بشرط
أن لا يتجاوز الأجر المسمى.
شرح المجلة للأتاسی (2/542):
شرح المادة 462:کون البدل مجهولا یشمل ما إذا لم یسم بدل أصلا، و ما إذا سمی بدلًا مجهولا، کثوب أو دابة، و ما إذا سمی بدلا بعضه معلوم و بعضه مجهول کما إذا آجره داره بمائة درهم علی أن یرمها المستأجر. و من هذا ما إذا آجره داره بعشرة علی أن لا یسکنها المستأجر کما فی الدرر تبعًا للزیلعی و البحر. قال فی رد المحتار: لأنه جعل الأجرة ذلك المسمی و عدم السکنی، فصار نظیر ما تقدم فیما لو استأجر بمائة درهم علی أن یرمها المستأجر اھ، و نقل عن غایة البیان ما یدل علی هذا التعلیل.
ففی هذ ه الصور کلها یلزم بالاستعمال أجر المثل بالغا ما بلغ؛ لعدم ما یرجع إلیه……الخ
(وفي الصورة الثانية يلزم أجر المثل بشرط أن لا يتجاوز الأجر المسمى) لرضی المتعاقدین به، و ینقص عنه لفساد التسمیة بفساد العقد؛ لأنه إذا فسد الشیئ فسد ما فی ضمنه (الدر المختار و حواشیه).
أقول: و إنما لم یزد علی المسمی مع أن التسمیة فاسدة أیضا؛ لأن رضی المؤجر بالمسمی یکون إبراء للمستأجر عن الزیادة، کما سمعت التعلیل بذلك آنفًا، تأمل.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27/محرم الحرام /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب