021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جانور بٹائی پر دینا
74027اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ہمارے یہاں سندھ میں یہ رواج ہے کہ گائے، بکری یا بھینس وغیرہ خرید کر کسی شخص کو دی جاتی ہے کہ وہ اسے اپنی حفاظت میں لے، اس کے چارہ وغیرہ کا انتظام کرتا رہے، اور جب اس جانور کو بیچنے کا وقت آئے گا تو جانور بیچ کر پہلے مالک اپنی قیمتِ خرید وصول کر لے گا، اس کے بعد جو آمدنی اور بچت ہوگی وہ دونوں آدھی آدھی لے لیں گے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ معاملہ درست نہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ:

اگر اسے شرکت قرار دیا جائے تو یہ شرکتِ فاسدہ ہے۔ نہ یہاں شرکت الملک ہے (کیونکہ جانور ایک شخص کا ہے) جس کی بنیاد پر جانور پالنے والے کو نفع میں حصہ دار مانا جائے۔ نہ ہی یہ معاملہ شرکت العقد کہلا سکتا ہے؛ اس لیے ایک شخص کی طرف سے پالنے کے لیے (نہ کہ بیچنے کے لیے) جانور ہے اور دوسرے شخص کی طرف سے محنت، اور یہ صورت شرکت العقد کی کسی قسم کے تحت داخل نہیں۔

اور اگر اس معاملہ کو اجارہ قرار دیا جائے تو یہ اجارۂ فاسدہ ہے، اور اجرت میں جہالتِ فاحشہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں؛ کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ جانور کی قیمت بڑھے گی یا نہیں؟ اگر بڑھے گی تو کتنی بڑھے گی؟  بعض صورتوں میں مدتِ اجارہ بھی معلوم نہیں ہوتی کہ وہ شخص کتنا عرصہ جانور پالے گا؟

شرکت کی بنیاد پر اس معاملے کی تصحیح اس طرح ممکن ہے کہ  جانور کا مالک  اس دوسرے آدمی کو آدھا جانور متعین قیمت کے بدلے بیچ دے ،اس کے بعد اس کی قیمت معاف کر دے یا ایک متعین مدت تک قیمت ادھار اور مؤخر کردے تو اس طرح یہ جانور اور اس کے منافع ( بچے ، دودھ اور گوبر وغیرہ ) ان دونوں کے درمیان مشترک ہوں گے۔ ا س صورت میں اگر جانور پالنے والا شخص کسی وقت جانور دینے والے سے اس کے حصے کے چارہ اور پالنے کی اجرت کا مطالبہ کرے تو وہ یہ خرچہ اور اجرت دینے کا پابند ہوگا۔ البتہ اگر وہ دونوں باہمی رضامندی سے آپس میں یہ بات طے کرلیں کہ دودھ وغیرہ (یعنی اپنے حصے کے جو منافع اصل مالک جانور پالنے والے کو دینے پر راضی ہو) جانور پالنے والا استعمال کرے گا اور اس کے بدلے اصل مالک سے اس کے حصے کے چارے اور پالنے کی محنت کی اجرت کا مطالبہ نہیں کرے گا تو یہ بھی جائز ہے۔  

اور اجارہ کی بنیاد پر اس معاملے کی تصحیح کی صورت یہ ہے کہ جانور پالنے والے کے لیے ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر متعین اجرت طے کی جائے جیسا کہ اجارہ کے عام معاملات میں ہوتا ہے۔ باقی جانور، اس کی قیمت میں اگر اضافہ ہوتا ہے تو وہ، اور دیگر تمام منافع دودھ وغیرہ مالک کے ہوں گے، جانور کے چارہ وغیرہ کا خرچہ بھی مالک ہی برداشت کرے گا۔   

اگر کسی نے سوال میں ذکر کردہ طریقے پر معاملہ کر لیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ پورا جانور، اس کے بچے اور دودھ وغیرہ مالک ہی کی ملکیت ہوں گے۔ اور جانور پالنے والے نے جتنی مدت جانور پالا ہوگا، وہ اس کی اجرتِ مثل (یعنی اس جیسا شخص اتنی مدت ایسا جانور پالنے کی جو اجرت لیتا ہو) کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح اس نے جانور کو اپنے پاس سے جو چارہ کھلایا ہو، اس کی قیمت بھی مالک سے وصول کرنے کا حق دار ہوگا۔ دوسری طرف اگر اس نے جانور سے کچھ فوائد مثلا دودھ وغیرہ حاصل کیے ہوں تو اس پر ان فوائد کی مثل یا قیمت لازم ہوگی، اور اگر جانور (مثلا بیل) سے کوئی کام لیا ہوگا تو اس کی اجرتِ مثل لازم ہوگی۔ 

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (4/ 445):
دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة. والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما.
المغني (6/ 7):
فصل : ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها ونسلها وصوفها وشعرها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية جعفر بن محمد النسائي؛ لأن الأجر غير معلوم ولا يصلح عوضا في البيع.  وقال إسماعيل بن سعيد : سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل على أن يعلفها ويتحفظها وما ولدت من ولد بينهما فقال : أكره ذلك وبه قال أبو أيوب وأبو خيثمة : ولا أعلم
فيه مخالفا وذلك لأن العوض مجهول معدوم ولا يدري أيوجد أم لا والأصل عدمه ولا يصلح أن يكون ثمنا.
 فإن قيل : فقد جوزتم دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف ربحها قلنا : إنما جاز ثم تشبيها بالمضاربة؛ لأنها عين تنمى بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء والمساقاة كالمضاربة وفي مسألتنا لا يمكن ذلك لأن النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله على عمله فيها فلم يمكن إلحاقه بذلك.  وإن استأجره على رعايتها مدة معلومة بنصفها أو جزء معلوم منها صح لأن العمل والأجر والمدة معلوم فصح كما لو جعل الأجر دراهم ويكون النماء الحاصل بينهما بحكم الملك لأنه ملك الجزء المجعول له منها في الحال فيكون له نماؤه كما لو اشتراه.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27/محرم الحرام /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب