03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں ہبہ کی ہوئی جائیداد میں بیٹیوں کاحصہ بنتاہے یانہیں؟
74063ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  عبدالرحمن کے دوبیٹے اورچھ بیٹیاں ہیں ،عبدالرحمن نے زندگی میں ساری جائیداد اپنے بڑے بیٹے عمرو کے نام کرادی اورچھوٹے بیٹے  کوچھوڑدیا،بیٹیوں نے والدکی زندگی میں اپناحصہ معاف کردیا،عبدالرحمن  نے اپنی بیٹیوں سے پوچھنے کے بعد ساری جائیداد بڑے بیٹے کے نام کرائی تھی عبدالرحمن اس کے بعد سات سال زندہ رہا،عمرو نے بعد میں اپنے چھوٹے بھائی کوبھی اس میں شامل کرلیا،اب یہ زمین بھائیوں کے نام ہوئے 27سال ہوچکے ہیں،چھ بہنوں میں سے تین وفات پاچکی ہیں اورتین زندہ ہیں اورجووفات پاچکی ہیں ان کے شوہربھی وفات پاچکے ہیں ، اس ساری تفصیل کی روشنی میں پہلاسوال یہ ہے کہ کیااس صورت میں  والدکی جائیداد میں بیٹیوں کاحصہ بنتاہے یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بڑے بیٹے کوزبانی طورپر کہناکہ یہ جائیدادتمہاری ہے یاملکیت دینے کی نیت سےکاغذات بیٹے کے نام پر بنانا ہبہ ہے ، ہبہ مکمل ہونے کے لئے موہوب لہ (جس کوہبہ کیاجارہاہے)کواس طرح قبضہ دیناضروری ہے کہ وہ اس میں اپنی مرضی سے آزادانہ طورپر تصرف کرسکےجس کیلئے ضروری ہے کہ ہبہ کی گئی چیزکوبالکل الگ کرکے اپنے تصرف سے فارغ کردے،اگراس طرح کاقبضہ نہ دیاجائےتو ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔صورت مسؤلہ میں اگر والد نےاپنی ساری جائیداد بڑے بیٹے کے نام صرف کاغذات کی حد تک کرائی  تھی اوران کواس زمین پر اس طورپر مالکانہ تصرف کااختیارنہیں دیاتھاکہ وہ اپنی مرضی سے اس کواستعمال کرسکے تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا اورزمین والدکی ملکیت ہی شمارہوگی، اس صورت میں والدکی وفات کے بعد تمام ورثہ (بیٹے اوربیٹیوں) کااس میں حق ہے،اوراگروالدکی وفات کے بعد کسی بیٹی کاانتقال ہواہےتووالدکے ترکہ میں ملنے والاحصہ اس کے ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔والدکی زندگی میں بیٹیوں کااپنے حصہ سے دستبردارہوجانے سے ترکہ میں ان کاحصہ ختم نہیں ہوتا،ترکہ میں حصہ ملنے کےبعد پھرکوئی بہن اپنی مرضی اورخوشی سے اپناحصہ کسی بھائی کودیدے تواس کااعتبارہوتاہے۔

  اوراگرباقاعدہ نام کرانےکے ساتھ قبضہ بھی دیدیاتھا تواس صورت میں یہ ساری جائیداد بڑے بیٹے کی ملکیت ہے،بہنوں کامطالبہ کرنااس صورت میں درست نہیں،البتہ بھائی کوچاہیے کہ بہنوں کےساتھ حسن سلوک کرتے ہوئےان کوبھی شریک کرلے یاکچھ دیدے۔

حوالہ جات

الدر المختار للحصفكي (ج 5 / ص 259):

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

العناية شرح الهداية (ج 12 / ص 264):

"ولنا قوله عليه الصلاة والسلام { لا تجوز الهبة إلا مقبوضة } والمراد نفي الملك ، لأن الجواز بدونه ثابت ، ولأنه عقد تبرع ، وفي إثبات الملك قبل القبض إلزام المتبرع شيئا لم يتبرع به ، وهو التسليم فلا يصح."

الجوهرة النيرة شرح مختصر القدوري (ج 3 / ص 173):

"لو قال الرجل : جميع مالي ، أو جميع ما أملكه لفلان فهذا إقرار بالهبة لا يجوز إلا مقبوضة ، وإن امتنع من التسليم لم يجبر عليه."

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید

02/02/1443

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب